وعن سفيان الثوري قال كان المال فيما مضى يكره فاما اليوم فهو ترس المؤمن وقال لولا هذه الدنانير لتمندل بنا هؤلاء الملوك وقال من كان في يده من هذه شيء فليصلحه فإنه زمان إن احتاج كان اول من يبذل دينه وقال: الحلال لايحتمل السرف. رواه في شرح السنة وَعَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ كَانَ الْمَالُ فِيمَا مَضَى يُكْرَهُ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَهُوَ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ وَقَالَ لَوْلَا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلَاءِ الْمُلُوكُ وَقَالَ مَنْ كَانَ فِي يَدِهِ مِنْ هَذِهِ شَيْءٌ فَلْيُصْلِحْهُ فَإِنَّهُ زَمَانٌ إِنِ احْتَاجَ كَانَ أَوَّلَ مَنْ يَبْذُلُ دِينَهُ وَقَالَ: الْحَلَالُ لايحتمل السَّرف. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
سفیان ثوری ؒ بیان کرتے ہیں، ماضی میں مال ناپسندیدہ چیز تھی، جبکہ آج وہ مومن کی ڈھال ہے، اور فرمایا: اگر (ہمارے پاس) دینار نہ ہوتے تو یہ بادشاہ ہمیں بے وقعت سمجھتے، اور فرمایا: جس شخص کے ہاتھ میں مال ہو وہ اسے کارآمد بنائے (ضائع نہ کرے) کیونکہ یہ ایسا دور ہے کہ اگر وہ ضرورت مند ہوا تو وہ پہلا شخص ہو گا جو (حصول دنیا کے لیے) اپنا دین بیچ ڈالے گا، اور فرمایا: حلال فضول خرچی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضعیف مردود، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف مردود، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 291 بعد 4098 بدون سند و لم أجده مسندًا)»