اخبرنا عيسى بن يونس، نا عوف، عن خلاس بن عمرو، عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((الناس معادن، خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا)).أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا عَوْفٌ، عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((النَّاسُ مَعَادِنُ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ (معدنی) کان کے مانند ہیں، ان میں سے جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں، جب انہوں نے (دین میں) سمجھ بوجھ حاصل کی۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الانبياء، باب واتخذ ابراهيم خليلا، رقم: 3352. مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل يوسف عليه السلام، رقم: 2378.»
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 554
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ (معدنی) کان کے مانند ہیں، ان میں سے جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں، جب انہوں نے (دین میں) سمجھ بوجھ حاصل کی۔“ [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:554]
فوائد: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں اللہ تعالیٰ نے جو صفات رکھی ہیں، وہ صفاتِ خیر اسلام میں بھی باقی رہتی ہیں۔ کیونکہ اسلام خود شرافت وکرامت کا حامل مذہب ہے تو اسلام انسانی صفات کو ختم نہیں کرتا بلکہ ان کا رخ موڑ دیتا ہے، بشرطیکہ اسلام قبول کر کے انہیں دینی سمجھ ہو، کیونکہ جب دینی علم اور دین کی سمجھ ہوگی تب ان کے اعمال میں جان پڑے گی، اخلاص بھی آئے گا اور ان کاموں کے کرنے کے مواقع بھی سمجھ میں آئیں گے اور اللہ کی رضا کے لیے ان کاموں کو انجام دیں گے۔