الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سلامتی اور صحت کا بیان
The Book of Greetings
7. باب إِبَاحَةُ الْخُرُوجِ لِلنِّسَاءِ لِقَضَاءِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ:
7. باب: عورتوں کو ضروری حاجت کے لیے باہر نکلنا درست ہے۔
Chapter: The Permissibility Of Women Going Out To Relieve Themselves
حدیث نمبر: 5668
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خرجت سودة بعد ما ضرب عليها الحجاب لتقضي حاجتها، وكانت امراة جسيمة تفرع النساء جسما لا تخفى على من يعرفها، فرآها عمر بن الخطاب، فقال يا سودة: والله ما تخفين علينا فانظري كيف تخرجين؟ قالت: فانكفات راجعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، وإنه ليتعشى وفي يده عرق فدخلت، فقالت: يا رسول الله، إني خرجت فقال لي عمر كذا وكذا، قالت: فاوحي إليه ثم رفع عنه، وإن العرق في يده ما وضعه، فقال: " إنه قد اذن لكن ان تخرجن لحاجتكن "، وفي رواية ابي بكر يفرع النساء جسمها، زاد ابو بكر في حديثه، فقال هشام: يعني البراز.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: خَرَجَتْ سَوْدَةُ بَعْدَ مَا ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ لِتَقْضِيَ حَاجَتَهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً تَفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمًا لَا تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ يَا سَوْدَةُ: وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ؟ قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم في بيتي، وإنه ليتعشى وفي يده عرق فدخلت، فقالت: يا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي خَرَجْتُ فَقَالَ لِي عُمَر ُ كَذَا وَكَذَا، قَالَتْ: فَأُوحِيَ إِلَيْهِ ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ، وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ، فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ "، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ يَفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمُهَا، زَادَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ هِشَامٌ: يَعْنِي الْبَرَازَ.
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے ہشام سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: پردہ ہم پرلاگو ہوجانےکےبعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جسامت میں بڑی تھیں، جسمانی طور پر عورتوں سے اونچی (نظر آتی) تھیں۔جوشخص انہیں جانتا ہو (پردے کے باوجود) اس کے لیے مخفی نہیں رہتی تھی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھ کر کہا: سودہ رضی اللہ عنہا!اللہ کی قسم!آپ ہم سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں اس لیے دیکھ لیجئے آپ کیسے باہر نکلا کریں گی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا (یہ سنتے ہی) الٹے پاؤں لوٹ آئیں اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔آپ کے دست مبارک میں گوشت والی ایک ہڈی تھی وہ اندر آئیں اور کہنے لگیں۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں باہر نکلی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس اس طرح کہا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اسی وقت اللہ تعا لیٰ نے آپ پر وحی نازل فر ما ئی، پھر آپ سے وحی کی کیفیت زائل ہو گئی، ہڈی اسی طرح آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے اسے رکھا نہیں تھا، آپ نے فرمایا: تم سب (امہات المومنین) کو اجازت دے دی گئی ہے کہ تم ضرورت کے لیے باہر جا سکتی ہو۔" ابوبکر (ابن ابی شیبہ) کی روایت میں ہے: "ان کا جسم عورتوں سے اونچاتھا "ابو بکر نے اپنی حدیث (کی سند) میں یہ اضافہ کیا: تو ہشام نے کہا: آپ کا مقصود قضائے حاجت کے لیے جا نے سے تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد اپنی ضرورت انسانی پورا کرنے کے لیے نکلیں اور وہ بھاری بھر کم عورت تھیں، عورتوں سے ان کا جسم لمبا تھا، جاننے والوں سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں دیکھ کر کہا، اے سودہ! اللہ کی قسم! آپ ہم سے مخفی نہیں رہ سکتیں، سو آپ سوچیں، آپ کیسے باہر نکلیں گی، وہ وہیں سے واپس پلٹ گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور آپ شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے، اور آپ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی، حضرت سودہ داخل ہو کر کہنے لگیں، اے اللہ کے رسول! میں نکلی تو عمر نے مجھے یہ یہ کہا تو آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا، پھر یہ کیفیت دور ہوئی، ہڈی آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے اسے رکھا نہ تھا، سو آپ نے فرمایا: تمہیں قضائے حاجت کے لیے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر کی روایت میں ہے، اس کا جسم عورتوں سے بلند تھا، ابوبکر نے اپنی حدیث میں ہشام سے یہ اضافہ بھی بیان کیا، وہ قضائے حاجت کے لیے کھلے میدان میں جانے کے لیے نکلیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2170

   صحيح البخاري4795عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن
   صحيح البخاري5237عائشة بنت عبد اللهأذن الله لكن أن تخرجن لحوائجكن
   صحيح البخاري147عائشة بنت عبد اللهأذن أن تخرجن في حاجتكن
   صحيح مسلم5668عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5668  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جَسِيمَةً:
بھاری بھرکم۔
(2)
تَفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمًا يا یفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمها:
وہ قد آور تھیں،
ان کا جسم عورتوں سے بلند تھا،
اس لیے پردہ کرنے کے باوجود،
وہ واقف کاروں،
سےچھپ نہیں سکتی تھیں۔
(3)
عَرْقٌ:
چونڈنے والی ہڈی۔
(4)
الْبَرَازَ:
کھلا میدان۔
(5)
براز:
جسم سے نکلنے والا فضلہ،
پاخانہ۔
فوائد ومسائل:
عربوں کے ہاں معاشرتی مجالس اور دعوتوں میں عورت،
مرد اکٹھے شریک ہو جاتے تھے اور اس قسم کی محافل اور مجالس میں ہر قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور مل بیٹھ کر کھا پی لیتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اجنبی اور غیر محرم مرد حریم نبوی کو دیکھیں،
اس لیے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ اپنی ازواج کو پردہ میں رکھیے اور اس کی خاطر ایک رات قضائے حاجت کے لیے نکلنے پر ٹوکا،
تاکہ پردہ کا حکم نازل ہو،
اس پر پردہ کے ابتدائی احکام نازل ہوئے،
جن میں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا،
فرمایا:
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور جاہلیت کے سابقہ انداز کی طرح اپنی زینت کی نمائش نہ کرو۔
احزاب،
آیت 22۔
اس سلسلہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 تا 55 نازل ہوئیں،
جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کسی ضرورت کے تحت جانا پڑے تو انہیں کن آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے،
ایک ٹکڑا یہ ہے،
اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو،
یہ بات تمہارے دلوں کے لیے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے لیے بھی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں اگرچہ براہ راست خطاب تو ازواج مطہرات کو ہے،
کیونکہ معاشرتی اصلاح کا آغاز آپ ہی کے گھروں سے کیا گیا،
لیکن مراد تمام امت کی خواتین ہیں،
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پوری امت کی خواتین کے لیے نمونہ ہیں،
اگر نعوذ باللہ یہ نہیں ہے کہ ازواج مطہرات کے دل تو پاک رکھنے کے لیے پردے کے احکام کی ضرورت تھی اور دوسری عورتوں کے دل پاک تھے،
نیز ازواج نبوی کو نظر بد سے دیکھا جا سکتا تھا اور دوسری عورتوں پر کوئی نظر بد نہیں ڈالتا تھا،
اس لیے ان کے گھروں میں دندناتا ہوا داخل ہو سکتا ہے،
ان آیات کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں اور گھر سے باہر نہ نکلیں،
لیکن عورتوں کی طبعی ضروریات کے لیے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے،
اس لیے ایک دن حضرت سودہ پردہ کرتے ہوئے،
اپنے آپ کو پوری طرح ڈھانپ کر نکلیں،
لیکن چونکہ وہ بھاری بھر کم اور قد آور تھیں،
اس لیے وہ پردہ میں بھی چھپ نہیں سکتی تھیں،
اس لیے اس دفعہ پھر حضرت عمر نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،
اے سودہ،
آپ چھپ نہیں سکتیں،
اس لیے آپ کو پردہ میں بھی باہر نہیں نکلنا چاہیے،
لیکن حضرت عمر کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور سورہ احزاب کی آیت (نمبر 59)
اتری،
اے نبی! اپنی بیویوں،
اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو یہ ہدایت کر دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادروں کے پلو لٹکا کر نکلیں،
اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے۔
اس طرح اپنی ضرورت کے تحت بڑی چادر اوڑھ کر جس میں جسم سر تا پا ڈھپا ہو،
نکلنے کی اجازت دے دی گئی اور اس کو آپﷺ نے فرمایا:
تمہیں ضرورت کے تحت نکلنے کی اجازت دے دی گئی۔
سورہ احزاب کی ان آیات سے معلوم ہوا،
مسلمان عورت کی اصل جگہ اس کا گھر ہے،
اس کو محض سیر سپاٹے تفریح اور نمودونمائش کے لیے زیب و زینت کے ساتھ بن سنور کر گھر سے نہیں نکلنا چاہیے،
ہاں طبعی ضرورت کے لیے اگر اس کو گھر سے باہر قدم نکالنا پڑے تو پھر جلباب پہن کر باہر نکلیں اور جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں،
الذی يستر من فوق الی السفل (ابن عباس)
جو اوپر سے نیچے تک تمام جسم کو ڈھانپ لیتی ہے اور حافظ ابن حزم نے المحلی ج 3 ص 217 پر لکھا ہے،
الجلباب في لغة العرب التی خاطبتها بها رسول صلی الله عليه وسلم،
هو ما غطی جميع الجسم لا بعضه جلباب عربی زبان کی رو سے جس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خطاب کیا ہے،
اس چادر کو کہتے ہیں،
جو پورے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے،
نہ اس کے کچھ حصہ کو۔
گھر کے اندر رہتے ہوئے عورت کو کس قسم کا پردہ کرنا چاہیے،
کیونکہ گھروں میں عزیز و اقارب،
گھر کا کام کرنے والی عورتوں اور ملازموں یا بااعتماد دوستوں کو آنا پڑتا ہے،
اس کے بارے میں ضروری تفصیلات یا اصولی قوانین سورۃ نور کی آیات 27 تا 31 میں بیان کئے گئے ہیں اور بعض رخصتوں کی تفصیل سورہ نور کی آیات نمبر 58 یا 68 میں بیان کی گئی ہیں،
اس طرح پردہ جو معاشرتی زندگی کی اساس و بنیاد ہے اور خانگی زندگی کی تمام خوشیاں اور مسرتیں اس سے وابستہ ہیں،
قرآن مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں،
تاکہ مسلمانوں کے اندر عریانی و فحاشی،
بے حیائی اور بے شرمی کے مظاہر سے اخلاقی اقدار کا تیاپانچہ نہ ہو جائے اور اس کی مزید تشریح و توضیح احادیث نبوی میں کر دی گئی ہے،
قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کے لیے دیکھئے،
(قرآن میں پردے کے احکام از مولانا امین اصلاحی مرحوم)
اور مکمل تفصیلات کے لیے دیکھئے،
تفصیل الخطاب فی تفسیر آیات الحجاب)
مفتی محمد شفیع مرحوم اور پردہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5668   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.