الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
روزے کے مسائل
रोज़ों के नियम
3. باب الاعتكاف وقيام رمضان
3. اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان
३. “ रमज़ान में एतकाफ़ और रात का क़याम ( तहज्जुद की नमाज़ ) ”
حدیث نمبر: 573
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعنها رضي الله عنها قالت: السنة على المعتكف ان لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امراة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة إلا لما لا بد له منه. ولا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا في مسجد جامع. رواه ابو داود ولا باس برجاله إلا ان الراجح وقف آخره.وعنها رضي الله عنها قالت: السنة على المعتكف أن لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امرأة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة إلا لما لا بد له منه. ولا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا في مسجد جامع. رواه أبو داود ولا بأس برجاله إلا أن الراجح وقف آخره.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے پر سنت ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی بیمار پرسی کرے نہ جنازہ میں شرکت کرے، نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور سوائے حاجات ضروریہ کے مسجد میں سے نہ نکلے اور سوائے جامع مسجد کے اعتکاف نہ کرے۔ (ابوداؤد) اس کے راویوں میں کوئی خلل نہیں لیکن راجح یہ ہے کہ اس کے آخری الفاظ موقوف ہیں۔
हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि एतकाफ़ करने वाले पर सुन्नत है कि वह न किसी रोगी का हाल पूछने जाए, न जनाज़े में जाए, न औरत को हाथ लगाए और न ही इस से संभोग करे और सिवाए आवश्यकताओं के मस्जिद में से न निकले और सिवाए जामा मस्जिद के एतकाफ़ न करे । (अबू दाऊद)
इस के रावियों में कोई ख़लल नहीं लेकिन राजह ये है कि इस के अंतिम शब्द मोक़ूफ़ हैं ।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصوم، باب المعتكف يعود المريض، حديث:2473. *الزهري مدلس وعنعن.»

’A’isha (RAA) narrated, ‘It is Sunnah for the one performing I'tikaf not to visit the sick, attend a funeral, or touch his wife (with sexual desire), nor have sexual intercourse with her. He should also not go out (of the mosque) except for an extreme necessity, and no I’tikaf is accepted without fasting, or without being in a congregational mosque (where Friday prayer is performed).’ Related by Abu Dawud with an acceptable chain of narrators, but scholars say that the last part (starting: ‘no I'tikaf is accepted….) is most probably the saying of ’A’isha (RAA), i.e. Hadith Mauquf (i.e. that which the companion does not connect to the Prophet and it is not the Prophet (ﷺ) himself.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: ضعيف


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 573  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے پر سنت ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی بیمار پرسی کرے نہ جنازہ میں شرکت کرے، نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور سوائے حاجات ضروریہ کے مسجد میں سے نہ نکلے اور سوائے جامع مسجد کے اعتکاف نہ کرے۔ (ابوداؤد) اس کے راویوں میں کوئی خلل نہیں لیکن راجح یہ ہے کہ اس کے آخری الفاظ موقوف ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 573]
573 لغوی تشریح:
«اَنْ لَّا يَعُودَ» یہ عیادت سے ماخوذ ہے، یعنی اعتکاف کی جگہ سے عیادت کے لیے نہ نکلے، البتہ اگر راہ چلتے مریض کی حالت کے بارے میں سوال کر لے تو اس میں حرج نہیں۔
«وَلَا يَمَسْ اِمْرَاَةٌ» یعنی شہوت سے عورت کو ہاتھ نہ لگائے۔
«وَلَا يُبَاشِرُهَا» اور نہ اس سے جماع کرے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ مس سے جماع مراد ہو اور مباشرت سے گلے ملنا وغیرہ۔
«وَلَا اِعْتِكَافَ اِلَّا بِصَوْمٍ» اور روزے کے بغیر اعتکاف نہ کرے۔
«مَسْجِدٍ جَامِعٍ» ‏‏‏‏ وہ مسجد جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔
«اِلَّا اَنَّ الرَّجِحَ وَقَفُ آخِرِهِ» یعنی آخری جملہ «ولا اعتكاف الا بصوم» موقوف ہے، مصنف علام نے فتح الباری میں کہا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بالجزم فرمایا: مرفوع حدیث صرف «لَا يَخْرُجَ لِحَاجَتةٍ» ہے اور اس کے علاوہ باقی موقوف ہے۔ [فتح الباري]
اور یہاں فرمایا ہے کہ آخری حصہ ہی موقوف ہے۔ [سبل السلام]
امام ابوداود رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ عبدالرحمٰن بن اسحق کے علاوہ کوئی بھی «اَلسُّنَّةُ» کے الفاظ بیان نہیں کرتا، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ سنت ہے۔ اور انہوں نے اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول قرار دیا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے متابعات کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ اور اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ [ارواء الغليل، رقم: 962 وصحيح سنن ابي داود مفصل للالباني رقم: 2135]
اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ «والله اعلم»
➋ اعتکاف بہرنوع مسجد میں ہونا چاہیے۔ جامع مسجد سے مراد امام احمد اور امام ابوحنیفہ رحمها اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں نماز باجماعت ہوتی ہو۔ جمہور کا خیال ہے کہ جس پر جمعہ فرض نہیں وہ ہر اس مسجد میں اعتکاف کر سکتا ہے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو لیکن جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے اس مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔
➌ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے یا نہیں۔ جو علماء مذکورہ روایت کے الفاظ «لَااعْتِكَافَ» کو مدرج اور موقوف سمجھتے ہیں ان کی نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے، البتہ جو علماء اسے مرفوعاً حسن قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک روزہ شرط ہے اور یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ «والله اعلم» ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 573   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.