الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: لباس کے بیان میں
The Book of Dress
21. بَابُ الاِحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ:
21. باب: ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنا۔
(21) Chapter. Al-Ihtiba in one garment (to sit wrapped with one garment around his back and knees).
حدیث نمبر: 5821
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبستين: ان يحتبي الرجل في الثوب الواحد ليس على فرجه منه شيء، وان يشتمل بالثوب الواحد ليس على احد شقيه، وعن الملامسة، والمنابذة".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَتَيْنِ: أَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، وَأَنْ يَشْتَمِلَ بِالثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى أَحَدِ شِقَّيْهِ، وَعَنِ الْمُلَامَسَةِ، وَالْمُنَابَذَةِ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا یہ کہ کوئی شخص ایک ہی کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلی کو ملا کر باندھ لے اور شرمگاہ پر کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو اور یہ کہ کوئی شخص ایک کپڑے کو اس طرح جسم پر لپیٹے کہ ایک طرف کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو اور آپ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle forbade two types of dresses: (A) To sit in an Ihtiba' posture in one garment nothing of which covers his private parts. (B) to cover one side of his body with one garment and leave the other side bare The Prophet also forbade the Mulamasa and Munabadha.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 711


   صحيح البخاري584عبد الرحمن بن صخرعن اشتمال الصماء الاحتباء في ثوب واحد يفضي بفرجه إلى السماء وعن المنابذة والملامسة
   صحيح البخاري5821عبد الرحمن بن صخريشتمل بالثوب الواحد ليس على أحد شقيه عن الملامسة والمنابذة
   صحيح البخاري368عبد الرحمن بن صخريشتمل الصماء يحتبي الرجل في ثوب واحد
   صحيح البخاري2145عبد الرحمن بن صخرلبستين أن يحتبي الرجل في الثوب الواحد ثم يرفعه على منكبه
   جامع الترمذي1758عبد الرحمن بن صخرنهى عن لبستين الصماء يحتبي الرجل بثوبه ليس على فرجه منه شيء
   سنن أبي داود4080عبد الرحمن بن صخرلبستين أن يحتبي الرجل مفضيا بفرجه إلى السماء يلبس ثوبه وأحد جانبيه خارج ويلقي ثوبه على عاتقه
   سنن ابن ماجه3560عبد الرحمن بن صخراشتمال الصماء عن الاحتباء في الثوب الواحد يفضي بفرجه إلى السماء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم489عبد الرحمن بن صخرنهى عن الملامسة والمنابذة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 489  
´تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے`
«. . . عن ابى هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الملامسة والمنابذة . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ (دو قسم کے سودوں) سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 489]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5821، من حديث مالك به، ورواه مسلم 1511، من حديث ابي الزناد به مختصراً جداً]

تفقه: :
➊ ملامسہ اس سودے (بیع) کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑا کو چھو کر خرید لے اور اسے کھول کر نہ دیکھے۔ اسی طرح اندھیرے میں اور دیکھے بغیر صرف ہاتھ لگا کر خریدے ہوئے سودے کو ملامسہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سودے میں ایک فریق کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔
➋ منابذہ اس سودے کو کہتے ہیں کہ دکاندار اپنا کپڑا (وغیرہ) گاہک کی طرف پھینک دے جسے وہ (گاہک) کھول کر نہ دیکھ سکے اور سودے کا پابند ہو جائے۔ ایسے سودے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے جن میں ایک فریق کا نقصان ہو جاتا تھا لہٰذا اسلام نے ایسی دکانداری سے منع کر دیا ہے۔
➌ دین اسلام مکمل اور کامل دین ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔
➍ تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے بلکہ صداقت و امانت سے عبارت ہے۔
➎ اپنی بیوی اور زر خرید لونڈیوں کے علاوہ تمام لوگوں سے شرمگاہ کا چھپانا فرض ہے۔
➏ اسلام شرم و حیا کا خاص خیال رکھتا ہے اور یہی دین فطرت ہے۔
➐ نماز میں کندھا ننگا کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 359، وصحيح مسلم 516، دارالسلام: 1151]
➑ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب آپ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کندھوں کے درمیان کُرتے پر اوپر نیچے تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطأ النسخة الباكستانيه ص711، واللفظ له دوسرا نسخه 2/918 ح1771، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 99   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3560  
´ممنوع لباس کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا: «اشتمال صماء» سے اور ایک کپڑے میں «احتباء» سے، کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3560]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(اشتمال الصماء)
اور (احتباء)
کی وضاحت گزشتہ حدیث کے ترجمہ اور فوائد میں ہو چکی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3560   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1758  
´بدن کو پورے طور پر کپڑا سے لپیٹ لینا اور چوتڑ کے بل کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا دونوں منع ہے​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لباس سے منع فرمایا: ایک صماء، اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص خود کو کپڑے میں اس طرح لپیٹ لے کہ اس کی شرمگاہ پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1758]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اہل لغت کے نزدیک صماء یہ ہے کہ آدمی چادرسے جسم کو اس طرح لپیٹ لے کہ بوقت ضرورت ہاتھ بھی نہ نکال سکے،
فقہاء کے نزدیک صماء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم پر ایک ہی چادرلپیٹے اوراس کا ایک کنارہ اٹھا کراپنے کندھے پرڈال لے جس سے اس کی شرم گاہ کھل جائے،
اور احتباء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا کرکے چوتڑ کے بل بیٹھ جائے اور اوپر سے کپڑا اس طرح لپیٹے کہ شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1758   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4080  
´جسم پر اس طرح کپڑا لپیٹنا کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک یہ کہ آدمی اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی ہو اس پر کوئی کپڑا نہ ہو، دوسرے یہ کہ اپنا کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ایک طرف کا حصہ کھلا ہو، اور کپڑا اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4080]
فوائد ومسائل:
ان صورتوں کے ناجائزاور حرام ہونےکی وجہ سے عریانی ہے، دوسری صورت کی ایک توجیہ ہوسکتی ہے کہ بعض اوقات متکبرقسم کے لوگ اپنی چادروں کے کنارے اپنے کندھوں پر ڈال کر اترتے ہوئے چلتے ہیں تو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4080   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5821  
5821. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے: ایک یہ کہ ایک ہی کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلی کو ملاکر باندھ لے اور اس کی شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص ایک کپڑے کو اس طرح جسم پر لپیٹ لے کہ دوسری طرف کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اسی طرح آپ نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے بھی منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5821]
حدیث حاشیہ:
عرب جاہلیت میں مجلس میں بیٹھنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔
بیٹھنے کی اس ہیئت میں عموماً شرمگاہ کھل جایا کرتی تھی کیونکہ جسم پر کپڑا صرف ایک ہی چادر کی صورت میں ہوتا تھا اور اسی سے کمر اور پنڈلی میں اور کمر لپیٹ کر دونوں کو ایک ساتھ باندھ لیتے تھے۔
یہ صورت ایسی ہوتی تھی کہ شرمگاہ کی ستر کا اہتمام بالکل باقی نہیں رہتا تھا اور بیٹھنے والا بے دست وپا اپنی اسی ہیئت پر بیٹھنے پر مجبور تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5821   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.