ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابرا ہیم سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر (سورۃ) ﴿وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا﴾نازل ہو ئی، ہم اس سورت کو تازہ بہ تازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے حاصل کر (سیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک سانپ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کو مار دو۔ "ہم اس کو مارنے کے لیے جھپٹےتو وہ ہم سے آگے بھا گ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ نے اس کو تمھا رے (ہاتھوں) نقصان پہنچنےسے بچا لیا جس طرح تمھیں اس کے نقصان سے بچا لیا۔"
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سورہ مرسلات اتر چکی تھی اور ہم آپ سے براہ راست تازہ تازہ سیکھ رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے ایک سانپ نکلا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“ سو ہم اس کے قتل کرنے کے لیے اس کی طرف لپکے تو وہ ہم سے نکل گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اس کو تمہارے شر سے بچا لیا، جیسا کہ تمہیں اس کے شر سے بچا لیا۔“
نزلت عليه والمرسلات فإنه ليتلوها وإني لأتلقاها من فيه وإن فاه لرطب بها وثبت علينا حية قال النبي اقتلوها فابتدرناها فذهبت قال النبي وقيت شركم كما وقيتم شرها
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5835
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ حالت احرام کا واقعہ ہے کہ آپﷺ عرفہ کی رات منیٰ میں تھے تو آپ نے حرم میں اور حالت احرام میں سانپ کو قتل کرنے کا حکم دیا لیکن وہ قابو نہ آ سکا، اس طرح قتل ہونے سے بچ گیا اور اس نے کسی کو ڈسا بھی نہ تھا، اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچا سکے۔