الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
32. بَابُ مَنْ لَمْ يَكْرَهِ الصَّلاَةَ إِلاَّ بَعْدَ الْعَصْرِ وَالْفَجْرِ:
32. باب: اس شخص کی دلیل جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ رکھا ہے۔
(32) Chapter. Whoever did not dislike to offer optional prayers except after the compulsory prayers of Asr and Fajr only.
حدیث نمبر: Q589
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
رواه عمر، وابن عمر، وابو سعيد، وابو هريرةرَوَاهُ عُمَرُ، وَابْنُ عُمَرَ، وأبو سعيد، وأبو هريرة
‏‏‏‏ اس کو عمر، ابن عمر، ابوسعید اور ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم نے بیان کیا۔

حدیث نمبر: 589
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" اصلي كما رايت اصحابي يصلون، لا انهى احدا يصلي بليل ولا نهار ما شاء، غير ان لا تحروا طلوع الشمس ولا غروبها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ، لَا أَنْهَى أَحَدًا يُصَلِّي بِلَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ مَا شَاءَ، غَيْرَ أَنْ لَا تَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا".
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سے کہا، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا، میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں، کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔

Narrated Ibn `Umar: I pray as I saw my companions praying. I do not forbid praying at any time during the day or night except at sunset and sunrise.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 563


   صحيح البخاري3272عبد الله بن عمرإذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تبرز إذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تغيب لا تحينوا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها فإنها تطلع بين قرني شيطان
   صحيح البخاري583عبد الله بن عمرإذا طلع حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى ترتفع إذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغيب
   صحيح البخاري589عبد الله بن عمرلا أنهى أحدا يصلي بليل ولا نهار ما شاء غير أن لا تحروا طلوع الشمس ولا غروبها
   صحيح البخاري585عبد الله بن عمرلا يتحرى أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها
   صحيح البخاري582عبد الله بن عمرلا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها
   صحيح البخاري1629عبد الله بن عمرينهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وعند غروبها
   صحيح مسلم1925عبد الله بن عمرلا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها فإنها تطلع بقرني شيطان
   صحيح مسلم1924عبد الله بن عمرلا يتحرى أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها
   صحيح مسلم1926عبد الله بن عمرإذا بدا حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تبرز إذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغيب
   سنن أبي داود1415عبد الله بن عمرلم يسجدوا حتى تطلع الشمس
   سنن النسائى الصغرى572عبد الله بن عمرإذا طلع حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تشرق إذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغرب
   سنن النسائى الصغرى564عبد الله بن عمرلا يتحر أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس وعند غروبها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم198عبد الله بن عمرلا يتحرى احدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها
   مسندالحميدي681عبد الله بن عمرلا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس، ولا غروبها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 589  
´اس شخص کی دلیل جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ رکھا ہے`
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ، لَا أَنْهَى أَحَدًا يُصَلِّي بِلَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ مَا شَاءَ، غَيْرَ أَنْ لَا تَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا " . . . .»
. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا، میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں، کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَكْرَهِ الصَّلاَةَ إِلاَّ بَعْدَ الْعَصْرِ وَالْفَجْرِ:: 589]

تشریح:
عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 589   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 589  
589. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:589]
حدیث حاشیہ:
عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
مگرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 589   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 198  
´عصر کے بعد اور طلوع آفتاب تک نماز کی ممانعت`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يتحرى احدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی جان بوجھ کر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 198]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 585، ومسلم 828، من حديث مالك به]
تفقہ:
① سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بغیر سبب والی نفل نماز منع ہے۔
② مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے حدیثِ سابق: 96
③ جو لوگ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھتے تو انھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارتے تھے۔ ديكهئے: [الموطا 221/1 ح 518 وسنده صحيح]
④ فرض نمازیں، کفایہ ہوں یا عین اور مسنون نمازیں ان ممنوعہ اوقات میں (دوسرے دلائل کی رو سے) جائز ہیں۔ دیکھئے التمہید [130/14]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 564  
´سورج نکلتے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 564]
564 ۔ اردو حاشیہ: گویا ان اوقات میں قصداً نماز شروع کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے نماز پڑھ رہا ہے، اسی دوران میں سورج طلوع ہو جائے یا غروب ہو جائے یا سر پر آجائے تو نماز فاسد نہ ہو گی، وہ نماز جاری رکھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 564   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 572  
´عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 572]
572 ۔ اردو حاشیہ: کسی وجہ اور سبب کے بغیر عین طلوع اور غروب کے وقت نماز شروع کرنا درست نہیں ہے، ہاں! اگر پہلے سے پڑھ رہا ہے تو جاری رکھے جیسے کہ احادیث: 551تا559 میں ذکر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 572   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1415  
´جو شخص فجر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھے تو وہ کب سجدہ کرے؟`
ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تو میں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور (سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے تین مرتبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1415]
1415. اردو حاشیہ: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لئے اوقات مکروہ میں نماز تو یقینا ً ناجائز ہے۔ مگر سجدہ تلاوت نماز نہیں ہے۔ بنا بریں اوقات مکروہہ میں سجدہ تلاوت جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:589  
589. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:589]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1629)
دراصل امام بخاری ؒ کے نزدیک ممنوع اوقات صرف دو ہیں:
ایک نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، دوسرا نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔
ان اوقات میں عین طلوع آفتاب اور عین غروب آفتاب بھی شامل ہیں، البتہ عین دوپہر کا وقت ممنوعہ اوقات میں شامل نہیں، حالانکہ اس کے متعلق متعدد احادیث ہیں، چنانچہ حدیث عمرو بن عبسہ صحیح مسلم میں، حدیث ابوہریرہ ابن ماجہ اور سنن بیہقی میں، حدیث صنابحی موطا امام مالک میں اور عقبہ بن عامر کی حدیث صحیح مسلم میں، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔
کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں، اس بنا پر ائمۂ ثلاثہ اور جمہور محدثین نے وقت استوا کو ممنوعہ اوقات میں شامل کیا ہے۔
امام مالک ؒ نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں:
میں نے اہل علم کودیکھا ہے۔
وہ بڑے اہتمام سے دوپہر کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔
انھوں نے حدیث صنابحی ذکر کی ہے، لیکن اسے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا خیال نہیں کیا، یا اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے اسے قابل حجت خیال نہیں کیا۔
امام شافعی نے دوپہر کے وقت کو اوقات ممنوعہ میں شمارکیا ہے لیکن وہ جمعے کے دن کو اس سے مستثنٰی کرتے ہیں۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جمعے کے دن جلدی جلدی مسجد میں آنے کے متعلق کہا ہے اور امام کے آنے تک نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور امام زوال آفتاب کے بعد آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عین دوپہر کا وقت نماز کےلیے ممنوعہ اوقات میں سے نہیں۔
(فتح الباري: 85/2)
لیکن جمعے کا یہ استثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
ہمارے نزدیک متعدد احادیث کے پیش نظر ممنوعہ اوقات پانچ ہیں:
٭نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک۔
٭عین طلوع آفتاب۔
٭نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔
٭عین غروب آفتاب۔
٭ عین دوپہر کا وقت جب سورج سر پر ہو۔
ان اوقات میں غیر سببی نوافل پڑھنا منع ہیں۔
والله أعلم. (2)
بعض حضرات نے اوقات مکروہ کے درمیان کچھ فرق بیان کیا ہے، عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے اور عین طلوع وغروب کے وقت نماز میں مشغول ہونا حرام ہے، کیونکہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی، اگر حرام ہوتی تو آپ کیوں پڑھتے؟ گویا آپ کا عمل بیان جواز کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ عصر کے بعد نماز کے ممنوعہ وقت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک قضا اور سببی نماز کے علاوہ مطلق طور پر عصر کے بعد نماز جائز نہیں۔
البتہ امام شافعی ؒ نے ظہر کی سنت رہ جانے کی صورت میں عصر کے بعد پڑھنے کی اجازت دی ہے، تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، متعدد تابعین اور بہت سے علماء کے نزدیک نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند، سفید اور چمکدار ہو، نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
ان کے ہاں عصر کے بعد نماز کی نہی مطلق نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے ساتھ مقید ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر جبکہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 574)
اس کے متعلق تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔
(3)
ان ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اوقات اصلیہ کے اعتبار سے ہے۔
ان کےعلاوہ بھی چندایک مواقع پر نوافل میں مصروف ہونا منع ہے، مثلاً:
٭جب نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے۔
٭ جب امام خطبے کےلیے منبر پر چڑھ جائے۔
(الا یہ کہ کوئی اسی وقت مسجد میں آیا ہو)
٭ جب فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو۔
٭ مالکیہ کے نزدیک جمعے کےبعد لوگوں کے روزانہ ہونے تک۔
٭احناف کے نزدیک نماز مغرب سے پہلے، اگرچہ حدیث میں اس کا بین ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
(فتح الباري: 84/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 589   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.