الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
8. بَابُ صِلَةِ الْمَرْأَةِ أُمَّهَا وَلَهَا زَوْجٌ:
8. باب: اگر خاوند والی مسلمان عورت اپنے کافر ماں کے ساتھ نیک سلوک کرے۔
(8) Chapter. The kindness shown by a lady who has a husband, to her mother.
حدیث نمبر: 5979
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال الليث، حدثني هشام، عن عروة، عن اسماء، قالت: قدمت امي وهي مشركة في عهد قريش ومدتهم إذ عاهدوا النبي صلى الله عليه وسلم مع ابنها، فاستفتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن امي قدمت وهي راغبة افاصلها؟ قال:" نعم، صلي امك"وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالتَ: قَدِمَتْ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ إِذْ عَاهَدُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ ابْنِهَا، فَاسْتَفْتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، صِلِي أُمَّكِ"
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے ہشام نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میری والدہ مشرکہ تھیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریش کے ساتھ صلح کے زمانہ میں اپنے والد کے ساتھ (مدینہ منورہ) آئیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا کہ میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے الگ ہیں (کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

Narrated Asma': "My mother who was a Mushrikah (pagan, etc.), came with her father during the period of peace pact between the Muslims and the Quraish infidels. I went to seek the advice of the Prophet (saws) saying, "My mother has arrived and she is hoping (for my favor)." The Prophet (saws) said, "Yes, be good to your mother."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 9



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5979  
5979. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میری والدہ مشرکہ تھی۔ وہ نبی ﷺ کے قریش کے ساتھ معاہدہ صلح کے وقت اپنے والد کے ہمراہ مدینہ طبیبہ آئی۔ میں نے نبی ﷺ سے فتوی طلب کیا اور عرض کی کہ میری والدہ مجھ سے صلہ رحمی کی امید لے کر آئی ہے، کیا میں اس سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5979]
حدیث حاشیہ:
حضرت اسماء شادی شدہ خاتون تھیں، ان کی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی ہو چکی تھی۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اپنی ماں سے صلہ رحمی کرنے کی اجازت دی اور اس سلسلہ میں ان کے خاوند سے مشورہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔
(فتح الباري: 508/10)
لہٰذا اپنی ماں سے صلہ رحمی کرنے کے سلسلے میں خاوند سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں، عورت کو اپنی ماں سے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔
شادی کے بعد بھی اس کا فرض اور ماں کا حق خدمت ختم نہیں ہوتا، البتہ حقوق کے ٹکراؤ کی صورت میں خاوند کا حق فائق ہوگا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5979   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.