الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
46. باب مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
46. باب: سیدنا خضر علیہ السلام کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6168
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن عبد الله بن عباس ، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى عليه السلام، فقال ابن عباس: هو الخضر فمر بهما ابي بن كعب الانصاري ، فدعاه ابن عباس فقال: يا ابا الطفيل: هلم إلينا فإني قد تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، فهل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ فقال ابي: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل، فقال له: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال موسى: لا، فاوحى الله إلى موسى بل عبدنا الخضر، قال: فسال موسى السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له إذا افتقدت الحوت، فارجع فإنك ستلقاه، فسار موسى ما شاء الله ان يسير، ثم قال لفتاه: آتنا غداءنا، فقال فتى موسى حين ساله الغداء: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، فقال موسى لفتاه: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا، فكان من شانهما ما قص الله في كتابه إلا ان يونس، قال: فكان يتبع اثر الحوت في البحر ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ الْخَضِرُ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ: يَا أَبَا الطُّفَيْلِ: هَلُمَّ إِلَيْنَا فَإِنِّي قَدْ تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَهَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلْ عَبْدُنَا الْخَضِرُ، قَالَ: فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ إِذَا افْتَقَدْتَ الْحُوتَ، فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، فَسَارَ مُوسَى مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسِيرَ، ثُمَّ قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا، فَقَالَ فَتَى مُوسَى حِينَ سَأَلَهُ الْغَدَاءَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، فَقَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ إِلَّا أَنَّ يُونُسَ، قَالَ: فَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ ".
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے، پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا: ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے، میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فرماتے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: "موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں، اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فرمایا: تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فرما ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں، آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ علیہ السلام جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا، پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ، جب موسیٰ علیہ السلام نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان سے فرمایا: ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے، چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر علیہ السلام مل گئے، پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ (موسیٰ علیہ السلام) سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ خضر ؑ تھے،پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا:ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے،میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فر تے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر تے ہو ئے سنا:"موسیٰ ؑ اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا:کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ ؑ نے کہا: نہیں،اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فر یا:تو موسیٰ ؑ نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فر ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں،آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ ؑ جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا،پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ،جب موسیٰ ؑ نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ ؑ نے اپنے جوان سے فر یا:ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے،چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر ؑ مل گئے،پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فر یا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ(موسیٰ ؑ)سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2380

   صحيح البخاري3400أبي بن كعببينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك قال لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر فقال لموسى فتاه أرأيت إذ أوينا إلى الصخ
   صحيح البخاري7478أبي بن كعببينا موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك فقال موسى لا فأوحي إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان موسى يتبع أثر الحوت في البحر فقال فتى موسى لموس
   صحيح البخاري3401أبي بن كعبموسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فقال له بلى لي عبد بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري4726أبي بن كعبموسى رسول الله قال ذكر الناس يوما حتى إذا فاضت العيون ورقت القلوب ولى فأدركه رجل فقال أي رسول الله هل في الأرض أحد أعلم منك قال لا فعتب عليه إذ لم يرد العلم إلى الله قيل بلى قال أي رب فأين قال بمجمع البحرين قال أي رب اجعل لي علما أعلم ذلك به ف
   صحيح البخاري4727أبي بن كعبموسى خطيبا في بني إسرائيل فقيل له أي الناس أعلم قال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه وأوحى إليه بلى عبد من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري3278أبي بن كعبلفتاه آتنا غداءنا قال أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره ولم يجد موسى النصب حتى جاوز المكان الذي أمر الله به
   صحيح البخاري4725أبي بن كعبموسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه إن لي عبدا بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح البخاري122أبي بن كعبموسى النبي خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا أعلم فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح مسلم6163أبي بن كعبموسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم فقال أنا أعلم قال فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك
   صحيح مسلم6168أبي بن كعببينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال له هل تعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بل عبدنا الخضر قال فسأل موسى السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا افتقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فسار موسى ما شاء الله أن يسير ثم قال
   صحيح مسلم6165أبي بن كعببينما موسى في قومه يذكرهم بأيام الله وأيام الله نعماؤه وبلاؤه إذ قال ما أعلم في الأرض رجلا خيرا وأعلم مني قال فأوحى الله إليه إني أعلم بالخير منه أو عند من هو إن في الأرض رجلا هو أعلم منك قال يا رب فدلني عليه قال فقيل له تزود حوتا مالحا فإنه ح
   جامع الترمذي3149أبي بن كعبيرحم الله موسى لوددنا أنه كان صبر حتى يقص علينا من أخبارهما قال وقال رسول الله الأولى كانت من موسى نسيان قال وجاء عصفور حتى وقع على حرف السفينة ثم نقر في البحر فقال له الخضر ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور م
   سنن أبي داود3984أبي بن كعبرحمة الله علينا وعلى موسى لو صبر لرأى من صاحبه العجب ولكنه قال إن سألتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 113   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ`
«. . . سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ . . .»
. . . سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:: 122]

تشریح:
نوف بکالی تابعین سے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انہوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

سیدنا خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں ہو سکتے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ السلام کو سلام کیا، تو انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ خضر علیہ السلام کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہو گا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو، پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کر دیا۔ موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہو سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 122   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3149  
´سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا (الکہف: 79) (موجودہ مصاحف میں) صالحۃ کا لفظ نہیں ہے۔

2؎:
اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے،
چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اورکفر میں ڈھانپ دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3149   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6168  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سعید بن جبیر اور نوف بکالی کا اختلاف موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تھا،
جس کے بارے میں سعید نے حضرت ابن عباس سے پوچھا اور یہاں حضرت ابن عباس اور حر بن قیس کا اختلاف موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں ہے کہ وہ کون تھا اور یہاں سوال حضرت ابی بن کعب سے ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6168   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.