الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
11. بَابُ أَذَانِ الأَعْمَى إِذَا كَانَ لَهُ مَنْ يُخْبِرُهُ:
11. باب: اس بیان میں کہ نابینا شخص اذان دے سکتا ہے اگر اسے کوئی وقت بتانے والا آدمی موجود ہو۔
(11) Chapter. The Adhan pronounced by a blind man (is permissible) when there is a person to inform him about the time of the Salat (prayer).
حدیث نمبر: 617
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم، ثم قال: وكان رجلا اعمى لا ينادي حتى يقال له اصبحت اصبحت".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، ثُمَّ قَالَ: وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى لَا يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔

Narrated Salim bin `Abdullah: My father said that Allah s Apostle said, "Bilal pronounces 'Adhan at night, so keep on eating and drinking (Suhur) till Ibn Um Maktum pronounces Adhan." Salim added, "He was a blind man who would not pronounce the Adhan unless he was told that the day had dawned."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 590


   صحيح البخاري2656عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن أو قال حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم
   صحيح البخاري7248عبد الله بن عمربلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   صحيح البخاري617عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم ثم قال وكان رجلا أعمى لا ينادي حتى يقال له أصبحت أصبحت
   صحيح البخاري620عبد الله بن عمربلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   صحيح مسلم2537عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم
   صحيح مسلم2536عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   جامع الترمذي203عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   سنن النسائى الصغرى638عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   سنن النسائى الصغرى639عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   بلوغ المرام151عبد الله بن عمر‏‏‏‏إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم74عبد الله بن عمرإن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم
   مسندالحميدي623عبد الله بن عمرأن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 151  
´طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے`
«. . . وعن ابن عمر وعائشة رضي الله عنهم قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا بلال (رضی اللہ عنہ) رات کو اذان کہتا ہے تم لوگ ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) کی اذان تک کھا پی لیا کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 151]

لغوی تشریح:
«يُؤَذَّنُ بِلَيْلِ» رات کو اذان کہنے کا مطلب ہے کہ طلوع فجر سے قبل اذان کہتا ہے۔
«فَكُلُوا وَاشْرَبُوا» کھاؤ پیو سے مراد ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو سحری کا وقت باقی ہے، کھا پی سکتے ہو۔
«إِدْرَاجٌ» کا مطلب ہے: حدیث میں راوی کا اپنی طرف سے تشریح و توضیح کی صورت میں اضافہ کرنا۔ ادراج سے مراد یہاں «وَكَانَ رَجُلًا أَعْمٰي» کا فقرہ ہے جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یا زہری رحمہ اللہ کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسری اذان وقت سے مؤخر کر کے دی جاتی تھی کیونکہ اطلاع دینے والا سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو یا تو فجر کے طلوع ہونے کے قریب اطلاع دیتا یا جب فجر کا کچھ حصہ نمودار ہو جاتا اس وقت انہیں مطلع کرتا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے لیکن یہ اذان اس غرض کے لیے نہیں ہوتی جس غرض کے لیے معمول کی اذان دی جاتی ہے بلکہ اس سے مقصود سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے کہ وہ انہیں اور نماز کی تیاری کریں۔ یا تہجد گزاروں کو آگاہ کرنا تاکہ نماز ختم کر لیں اور فجر کے لئے تیار ہوئیں۔
➋ ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ 10، 15 منٹ کا وقفہ ہو گا۔
➌ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسجد میں نماز کی اذان دینے کے لیے دو مؤذن رکھنا درست ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 151   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 74  
´تہجد کی اذان`
«. . . 281- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں پس کھاؤ اور پیو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 74]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صبح کی اذان سے پہلے رات کی اذان مسنون ہے جسے آج کل سحری یا تہجد کی اذان کہا جاتا ہے۔
➋ جس حدیث میں آیا ہے کہ صبح کی پہلی اذان میں «الصلوٰة خير من النوم» کہو، اس سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی رات کی اذان مراد لینا غلط ہے بلکہ صبح کی دو اذانیں ہوتی ہیں: ① صبح کی اذان ② اقامت
اس میں اقامت کے بجائے صبح کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا چاہئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «من السنة إذا قال المؤذن فى أذان الفجر، حي على الفلاح قال: الصلوٰة خير من النوم۔» جب مؤذن اذانِ فجر میں حی علیٰ الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا سنت ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج1 ص202 ح386 وسنده صحيح وصححه البيهقي 1/423]
اس حدیث سے ابوجعفر الطحاوی نے استدلال کیا ہے کہ یہ الفاظ صبح کی اذان میں کہنے چاہئیں۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 1/137] تفصیلی دلائل کے لئے دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 1/423] اور شیخ امین اللہ پشاور ی کی کتاب [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص223 225]
◄ شیخ امین اللہ حفظہ اللہ فرماتے ہیں: «وإن قول الشيخ الألباني حفظه الله ضعيف فى هذه المسئلة» بے شک شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول اس مسئلے میں ضعیف ہے۔ [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص225]
➌ نابینا مؤذن کو اگر لوگ صحیح وقت بتا دیں تو اس کا اذان دینا صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 281   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 638  
´ایک مسجد میں دو مؤذن ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ۱؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 638]
638 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر ایک نماز کے لیے دو اذانیں ہوں (جیسے فجر اور جمعۃ المبارک) تو مؤذن بھی دو چاہئیں تاکہ آواز کا امتیاز رہے اور لوگ پہلی اور دوسری اذان میں امتیاز کرسکیں۔
➋ آپ کے دور مبارک میں صلاۃ فجر کے لیے دو اذانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک فجرکے طلوع سے پہلے تاکہ لوگ جاگ جائیں اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہولیں کیونکہ قدرتی طور پر اس وقت باقی نمازوں کے اوقات کے مقابل میں زیادہ مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر ایک اذان پر اکتفا کرتے تو لوگ جماعت سے رہ جاتے اور دوسری اذان طلوع فجر کے بعد نماز فجر کا قرب ظاہر کرنے کے لیے تاکہ لوگ گھروں سے چل پڑیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت میں زیادہ فاصلہ نہیں فرماتے تھے بلکہ اندھیرے میں نماز شروع فرماتے تھے۔ پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ کہتے اور دوسری ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔
➌ پہلی اذان نہ تو تہجد کے لیے تھی نہ سحری کے لیے، بلکہ یہ اصل اذان سے تھوڑی دیر قبل ہوتی تھی۔ مقصد اوپر بیان ہو چکا ہے۔ تہجد نفل ہیں اور نفل نماز کے لیے اذان نہیں، جیسے صلاۃ عید، صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقا اور تراویح وغیرہ، لہٰذا تہجد کے لیے بھی اذان نہیں ہو گی۔ سحری ویسے ہی اذان سے غیر متعلق ہے۔ اذان نماز کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ ہاں! ان دو اذانوں سے کوئی سحری کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا لے، منع نہیں جیسا کہ حدیث کے اندر اشارہ موجود ہے۔ مزید اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 638   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 203  
´رات ہی میں اذان دے دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 203]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہی راجح ہے،
کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی،
نیز آپ ﷺ نے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا،
بلکہ نماز فجر کے لیے بلال اذان دیا کرتے۔

2؎:
شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظر عمر والا یہی اثر رہا ہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہونے کا وہم ہو گیا ہو،
گویا انہیں یوں کہنا چاہئے کہ عمر کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا،
لیکن وہ وہم کے شکار ہو گئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 203   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 617  
617. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے تم (روزے کے لیے) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ راوی حدیث نے کہا: ابن ام مکتوم ؓ ایک نابینا آدمی تھے، وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:617]
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیا کرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔
عہد خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔
جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔
اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔
حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 617   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:617  
617. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے تم (روزے کے لیے) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ راوی حدیث نے کہا: ابن ام مکتوم ؓ ایک نابینا آدمی تھے، وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:617]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ نوی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک نابینے کی اذان صحیح نہیں۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کی طرف اس کراہت کا انتساب صحیح نہیں، البتہ احناف کی فقہی کتاب"محیط" میں نابینے کی اذان کے متعلق کراہت کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 131/2)
علامہ عینی ؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، لیکن کراہت کا اصل سبب عدم مشاہدہ کو قرار دیا ہے، لہٰذا اگر کوئی دیکھنے والا نابینے کو صحیح وقت کی خبر دے تو کراہت نہیں ہوگی۔
(عمدة القاري: 180/4)
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ نابینے کی اذان کو مکروہ خیال کرتے تھے۔
یہ کراہت بھی اسی بنیاد پر ہے جب اسے نہ خود تجربہ ہو اور نہ اسے صحیح وقت بتانے والا ہی ہو۔
امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان میں اسی شرط کا ذکر فرمایا ہے۔
واضح رہے کہ حضرت ابن ام مکتوم ؓ صبح کی اذان کے لیے طلوع فجر کا صحیح صحیح اندازہ لگا لیتے تھے، اس سلسلے میں ان سے کبھی خطا سرزد نہیں ہوئی، چنانچہ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔
(فتح الباري: 133/2) (2)
حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کے تین مؤذن تھے:
حضرت بلال ؓ، حضرت ابو محذورہ ؓ اور حضرت عمرو بن ام مکتوم۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن ام مکتوم چونکہ نابینے آدمی ہیں، اس لیے ان کی اذان سے کسی دھوکے میں مت پڑنا، البتہ بلال کی اذان کے بعد کھانا پینا بند کردیں۔
اسی طرح حضرت انیسہ بنت خبیب ؓ کہتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب ابن ام مکتوم اذان دے تو کھاؤ پیو اور جب بلال اذان دے تو کھانا پینا موقوف کردو۔
(صحیح ابن خزیمة: 210/1، حدیث: 404)
یہ روایات صحیح بخاری کی روایت کے برعکس ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سحری اور فجر کی اذان کے لیے ان حضرات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔
کبھی سحری کی اذان حضرت بلال کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت ابن ام مکتوم ؓ کے ذمے تھی جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے اور کبھی سحری کی اذان حضرت ابن مکتوم کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت بلال کے ذمے تھی، اس بنا پر ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔
(عمدة القاري: 182/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 617   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.