الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
9. بَابُ السَّلاَمِ لِلْمَعْرِفَةِ وَغَيْرِ الْمَعْرِفَةِ:
9. باب: پہچان ہو یا نہ ہو ہر ایک مسلمان کو سلام کرنا۔
(9) Chapter. To greet those whom one knows and those whom one does not know.
حدیث نمبر: 6237
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي ايوب رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث، يلتقيان، فيصد هذا ويصد هذا، وخيرهما الذي يبدا بالسلام"، وذكر سفيان انه سمعه منه ثلاث مرات.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، يَلْتَقِيَانِ، فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ"، وَذَكَرَ سُفْيَانُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق کاٹے کہ جب وہ ملیں تو یہ ایک طرف منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری طرف اور دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام پہلے کرے۔ اور سفیان نے کہا کہ انہوں نے یہ حدیث زہری سے تین مرتبہ سنی ہے۔

Narrated Abu Aiyub: The Prophet said, "It is not lawful for a Muslim to desert (not to speak to) his brother Muslim for more than three days while meeting, one turns his face to one side and the other turns his face to the other side. Lo! The better of the two is the one who starts greeting the other."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 254


   صحيح البخاري6077خالد بن زيدلا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام
   صحيح البخاري6237خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   صحيح مسلم6534خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   جامع الترمذي1932خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   سنن أبي داود4911خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم469خالد بن زيدلا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام
   بلوغ المرام1259خالد بن زيد‏‏‏‏لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام
   مسندالحميدي381خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 469  
´مسلمان کا مسلمان سے تین دن رات سے زیادہ بائیکاٹ کرنا حرام ہے`
«. . . عن ابى ايوب الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام . . .»
. . . سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بائیکاٹ کرے (ایسا نہ ہو کہ) جب ان کی ملاقات ہو تو ایک بھائی دوسرے سے منہ پھیر لے اور دوسرا اس سے منہ پھیر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو دوسرے کو پہلے سلام کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 469]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6077، ومسلم 2560، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مسلمان کا بغیر کسی شرعی عذر کے دوسرے مسلمان سے تین دن رات سے زیادہ ہجر (بائیکاٹ کرنا) حرام ہے۔ نیز دیکھئے: [ح4، 443]
➋ مسلمان کا اپنے صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کو سلام کہنے میں پہل کرنا بہت نیکی کا کام ہے۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ» لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو (انہیں) سلام کہنے میں ابتدا (پہل) کرے۔ [سنن ابي داؤد: 5197 وسنده صحيح وحسنه ابن الملقن فى تحفة المحتاج: 1624]
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کے دن دو دفعہ لوگوں کے اعمال (اللہ کے سامنے) پیش کئے جاتے ہیں پھر ہر مومن کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی سے بغض رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو اس وقت تک چھوڑ دو جب تک یہ صلح نہ کر لیں۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/909 ح1752، وسنده صحيح]
یہ روایت صحیح مسلم [2565] میں مرفوعاً یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے موجود ہے، لہٰذا یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 79   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259    
تین دن سے زیادہ بول چال چھوڑنا حلال نہیں
«وعن ابي ايوب رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذى يبدا بالسلام . ‏‏‏‏ متفق عليه»
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ بخاري و مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1259]

تخریج:
[بخاري 6077]،
[مسلم البروالصلة35]،
[تحفة الاشراف 3/98 ]

فوائد:
➊ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے۔ کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیئے جو ایک دوسرے پر واجب تھے مثلاً سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔
تین رات تک باہمی گفتگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے دوسرے دن انسان کچھ سوچے تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموماً تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
➌ قطع تعلق جو حرام ہے سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«‏‏‏‏لا يكون لمسلم ان يهجر مسلما فوق ثلاثة فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه فقد باء بإثمه» ‏‏‏‏ [ ابوداود 4913 ]
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔ پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے اگر (دوسرا آدمی) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔
امام احمد رحمہ الله نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا۔ مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
➍ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے ره جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور وہ حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں۔ البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 89   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259  
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان`
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1259»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب الهجرة، حديث:6077، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الهجر فوق ثلاثة أيام بلا عذر شرعي، حديث:2560.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مسلمان بھائیوں کی ناراضی ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں تین روز سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ناراضی کی وجہ دینی معاملہ ہو تو اس کے لیے غالباً کوئی حد نہیں ہے۔
2. دینی ناراضی تو عین ایمان کی علامت ہے۔
جب تک علت ناراضی موجود ہے‘ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے‘ جب وہ سبب دور ہو جائے تو ناراضی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مومن صادق کے ہاں باہم تعلقات کا سبب دین ہے‘ دنیا نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1259   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1932  
´مسلمان سے ترک تعلق اور اس سے بےرخی برتنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1932]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں،
اور اگراس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہوتو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہوجائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جارہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1932   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4911  
´مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟`
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4911]
فوائد ومسائل:
اگر کہیں شک رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی مقطہ کر لینا جائز نہیں۔
ہاں اگر مزید روابط بڑھانا خلافِ مصلحت ہو تو سلام دُعا سے بخیل نہیں ہونا چاہیئے۔
اس حدیث اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کرنا اور اسکا جواب دینا مقاطعے کے گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4911   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6237  
6237. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک سلام و کلام کرے۔ (وہ ایسے کہ) وہ دونوں ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے دوسرا ادھر منہ پھیرلے۔ اور دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ سفیان نے کہا کہ انہوں نے یہ حدیث امام زہری سے تین مرتبہ سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6237]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کے دو اجزاء ہیں۔
یہ حدیث پہلے حصے پر دلالت کرتی ہے کہ جان پہچان والے کو بھی سلام کیا جائے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا تو اس نے یوں سلام کہا:
اے عبدالرحمٰن! آپ پر سلام ہو۔
انہوں نے اسے جواب دینے کے بعد فرمایا:
لوگوں پر وہ وقت بھی آئے گا کہ سلام صرف خاص لوگوں ہی کو کیا جائے گا۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1049) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی حرام ہے، چنانچہ انسان میں موجود غصے کے پیش تین دن تک کے لیے ناراضی کی اجازت دی گئی ہے تاکہ اس مدت میں اس کا غصہ جاتا رہے۔
بہرحال سلام کرنا اسلام کا ایک شعار ہے جسے عام کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6237   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.