الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
41. بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَقَالَ عِنْدَهُمْ:
41. باب: اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے۔
(41) Chapter. Whoever visited some people and then had a mid-day nap at their home.
حدیث نمبر: 6283
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، انه سمعه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على ام حرام بنت ملحان فتطعمه، وكانت تحت عبادة بن الصامت، فدخل يوما فاطعمته، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم استيقظ يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ فقال:" ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر، ملوكا على الاسرة او قال: مثل الملوك على الاسرة"، شك إسحاق، قلت: ادع الله ان يجعلني منهم فدعا، ثم وضع راسه فنام، ثم استيقظ يضحك، فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال:" ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الاسرة، او مثل الملوك على الاسرة"، فقلت: ادع الله ان يجعلني منهم، قال:" انت من الاولين"، فركبت البحر زمان معاوية، فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ قَالَ: مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، شَكَّ إِسْحَاقُ، قُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ، أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ زَمَانَ مُعَاوِيَةَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے۔ عبداللہ بن ابی طلحہ نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء تشریف لے جاتے تھے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر بھی جاتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے (خواب میں) پیش کئے گئے، جو اس سمندر کے اوپر (کشتیوں میں) سوار ہوں گے (جنت میں وہ ایسے نظر آئے) جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں، یا بیان کیا کہ بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ اسحاق کو ان لفظوں میں ذرا شبہ تھا (ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تحت پر ہوتے ہیں یا مثل بادشاہوں کے تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس گروہ کے سب سے پہلے لوگوں میں ہو گی چنانچہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے (معاویہ رضی اللہ عنہ کی شام پر گورنری کے زمانہ میں) سمندری سفر کیا اور خشکی پر اترنے کے بعد اپنی سواری سے گر پڑیں اور وفات پا گئیں۔

Narrated Anas bin Malik: Whenever Allah's Apostle went to Quba, he used to visit Um Haram bint Milhan who would offer him meals; and she was the wife of 'Ubada bin As-samit. One day he went to her house and she offered him a meal, and after that he slept, and then woke up smiling. She (Um Haram) said, "I asked him, 'What makes you laugh, O Allah's Apostle?' He said, 'Some people of my followers were displayed before me as warriors fighting for Allah's Cause and sailing over this sea, kings on thrones,' or said, 'like kings on thrones.' (The narrator, 'Is-haq is in doubt about it.) I (Um Haram) said, 'O Allah's Apostle! Invoke Allah that He may make me one of them.' He invoked (Allah) for her and then lay his head and slept again and then woke up smiling. I asked, 'What makes you laugh, O Allah's Apostle?' He said, 'Some people of my followers were displayed before me as warriors fighting for Allah's Cause and sailing over this sea, kings on the thrones,' or said, 'like kings on the thrones.' I (Um Haram) said, 'O Allah's Apostle! Invoke Allah that He may make me one of them.' He said, You will be amongst the first ones." It is said that Um Haram sailed over the sea at the time of Muawiya, and on coming out of the sea, she fell down from her riding animal and died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 299



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6283  
6283. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہےانہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ قباء جاتے تو سیدہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے گھر بھی جاتے تھے۔ وہ آپ کو کھانا کھلاتی تھیں۔ اور سیدہ ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیت گئےجو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ وہ اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ یا فرمایا وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر ہیں اسحاق راوی کو ان الفاظ میں شک ہے۔ میں نے عرض کی: دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ پھر آپ اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر مسکرا رہے تھے میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: میری امت سے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6283]
حدیث حاشیہ:
ہر دو روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولہ کا باب کے مطابق کرنے کا ذکر ہے یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔
پہلی روایت میں آپ کے خوشبودار پسینے کا ذکر ہے صد بار قابل تعریف ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ جن کو یہ بہترین خوشبو نصیب ہوئی۔
دوسری روایت میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کے متعلق ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حرف بہ حرف صحیح ہوئی۔
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا اس جنگ میں واپسی کے وقت اپنی سواری سے گر کر شہید ہو گئی تھیں۔
اس طرح پیش گوئی پوری ہوئی۔
اس سے سمندری سفر کا جائز ہونا بھی ثابت ہوا، پر آج کل تو سمندری سفر بہت ضروری اور آسان بھی ہوگیا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6283   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6283  
6283. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہےانہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ قباء جاتے تو سیدہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے گھر بھی جاتے تھے۔ وہ آپ کو کھانا کھلاتی تھیں۔ اور سیدہ ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیت گئےجو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ وہ اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ یا فرمایا وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر ہیں اسحاق راوی کو ان الفاظ میں شک ہے۔ میں نے عرض کی: دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ پھر آپ اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر مسکرا رہے تھے میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: میری امت سے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6283]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو وہیں قیلولہ فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس حدیث کے بیان کرنے سے ہی ہے۔
(2)
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔
ہجرت کے بیسویں سال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ایک لشکر کے ساتھ نکل گئیں تو سمندر سے باہر نکلتے وقت سواری سے گر کر فوت ہوئیں۔
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
اس حدیث سے سمندری سفر کرنا جائز ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں قیلولہ کرتے تھے۔
(فتح الباري: 93/11)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6283   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.