الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
لباس اور زینت اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 690
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا شبابة، نا شعبة، نا محمد بن زياد، عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ينظر الله إلى من جر إزاره بطرا.أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، نا شُعْبَةُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ازراہِ تکبر اپنا ازار گھسیٹتا ہے، اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھتا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 690  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص از راہِ تکبر اپنا ازار گھسیٹتا ہے، اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھتا۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:690]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنا تکبر اور غرور کی علامت ہے اور ایسا کرنا حرام ہے۔ اور ایسے لوگوں کی طرف اللہ ذوالجلال رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا، کیونکہ اللہ ذوالجلال کی نظر سے کوئی چیز غائب تو ہو نہیں سکتی، لیکن عاجزی اختیار کرنے والا مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے۔ اور متکبر ومغرور اللہ ذوالجلال کے قہر کی نظر کا حقدار ہوتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ﴾ (النسآء: 36) بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔
احادیث پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی لباس بھی فخر و غرور اور تکبر کی بنا پر لٹکانا غلط اور ناجائز ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ازار، قمیص اور عمامہ میں سے کوئی ایک بھی تکبر سے لٹکائے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ (صحیح الجامع الصغیر، رقم: 2770)
قمیض لٹکانے سے مراد یہ ہے کہ اس کے بازو کھول کر ہاتھوں سے تجاوز کیا جائے۔ اور پگڑی لٹکانے سے مراد وہ لٹکانا ہے کہ اس کے پلو کو دائیں اور بائیں جانب میں بطور فخر و غرور لٹکایا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپڑا کہاں تک رکھنا چاہیے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی یا اپنی پنڈلی کا عضہ (موٹا حصہ) پکڑ کر فرمایا: چادر کی جگہ یہ ہے، اگر نہ مانو تو اس سے کچھ نیچے، اگر یہ بھی نہ مانو تو چادر کا ٹخنوں میں کوئی حق نہیں۔ (صحیح ترمذی، رقم: 1457)
لیکن اگر کوئی کہے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں لٹکاتا، ویسے ہی لٹکاتا ہوں تو اس کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنا ہی تکبر ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چادر کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ میں ہے اور اسی طرح کوئی آدمی جسم کے نقص کی وجہ سے چادر لٹکائے تو اس کا یہ عذر بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔
جیسا کہ سیدنا شرید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئے اور فرمایا: اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے کہا: میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں، میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر اوپر اٹھاؤ، کیونکہ اللہ عزوجل کی پیدا کی ہوئی ہر چیز خوبصورت ہے۔ تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا، اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی۔ (مسند احمد: 4؍ 390۔ سلسلة الصحیحة، رقم: 1441)
معلوم ہوا کہ اس صحابی کا چادر لٹکانا تکبر کی وجہ سے نہیں تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ اس میں تکبر پائے جانے کا گمان ہو سکتا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 690   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.