الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
24. بَابُ جِزْيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمَجُوسِ
24. یہود و نصاریٰ اور مجوس کے جزیہ کا بیان
حدیث نمبر: 692
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان عمر بن عبد العزيز كتب إلى عماله" ان يضعوا الجزية عمن اسلم من اهل الجزية حين يسلمون" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ" أَنْ يَضَعُوا الْجِزْيَةَ عَمَّنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْجِزْيَةِ حِينَ يُسْلِمُونَ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھ بھیجا اپنے عاملوں کو: جو لوگ جزیہ والوں میں سے مسلمان ہوں ان کا جزیہ معاف کریں۔

تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 570، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»

حدیث نمبر: 692ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: مضت السنة ان لا جزية على نساء اهل الكتاب ولا على صبيانهم، وان الجزية لا تؤخذ إلا من الرجال الذين قد بلغوا الحلم قَالَ مَالِك: مَضَتِ السُّنَّةُ أَنْ لَا جِزْيَةَ عَلَى نِسَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا عَلَى صِبْيَانِهِمْ، وَأَنَّ الْجِزْيَةَ لَا تُؤْخَذُ إِلَّا مِنَ الرِّجَالِ الَّذِينَ قَدْ بَلَغُوا الْحُلُمَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ سنت جاری ہے کہ جزیہ اہلِ کتاب کی عورتوں اور بچوں سے نہ لیا جائے گا، بلکہ جوان مردوں سے لیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 571، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»

حدیث نمبر: 692ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وليس على اهل الذمة ولا على المجوس في نخيلهم ولا كرومهم ولا زروعهم ولا مواشيهم صدقة، لان الصدقة إنما وضعت على المسلمين تطهيرا لهم وردا على فقرائهم، ووضعت الجزية على اهل الكتاب صغارا لهم فهم ما كانوا ببلدهم الذين صالحوا عليه، ليس عليهم شيء سوى الجزية في شيء من اموالهم إلا ان يتجروا في بلاد المسلمين، ويختلفوا فيها فيؤخذ منهم العشر فيما يديرون من التجارات، وذلك انهم إنما وضعت عليهم الجزية وصالحوا عليها على ان يقروا ببلادهم ويقاتل عنهم عدوهم، فمن خرج منهم من بلاده إلى غيرها يتجر إليها فعليه العشر من تجر منهم من اهل مصر إلى الشام، ومن اهل الشام إلى العراق، ومن اهل العراق إلى المدينة او اليمن او ما اشبه هذا من البلاد فعليه العشر، ولا صدقة على اهل الكتاب ولا المجوس في شيء من اموالهم ولا من مواشيهم ولا ثمارهم ولا زروعهم، مضت بذلك السنة ويقرون على دينهم، ويكونون على ما كانوا عليه وإن اختلفوا في العام الواحد مرارا في بلاد المسلمين، فعليهم كلما اختلفوا العشر لان ذلك ليس مما صالحوا عليه ولا مما شرط لهم، وهذا الذي ادركت عليه اهل العلم ببلدناوَلَيْسَ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَلَا عَلَى الْمَجُوسِ فِي نَخِيلِهِمْ وَلَا كُرُومِهِمْ وَلَا زُرُوعِهِمْ وَلَا مَوَاشِيهِمْ صَدَقَةٌ، لِأَنَّ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا وُضِعَتْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ تَطْهِيرًا لَهُمْ وَرَدًّا عَلَى فُقَرَائِهِمْ، وَوُضِعَتِ الْجِزْيَةُ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ صَغَارًا لَهُمْ فَهُمْ مَا كَانُوا بِبَلَدِهِمُ الَّذِينَ صَالَحُوا عَلَيْهِ، لَيْسَ عَلَيْهِمْ شَيْءٌ سِوَى الْجِزْيَةِ فِي شَيْءٍ مِنْ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا أَنْ يَتَّجِرُوا فِي بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ، وَيَخْتَلِفُوا فِيهَا فَيُؤْخَذُ مِنْهُمُ الْعُشْرُ فِيمَا يُدِيرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ إِنَّمَا وُضِعَتْ عَلَيْهِمُ الْجِزْيَةُ وَصَالَحُوا عَلَيْهَا عَلَى أَنْ يُقَرُّوا بِبِلَادِهِمْ وَيُقَاتَلُ عَنْهُمْ عَدُوُّهُمْ، فَمَنْ خَرَجَ مِنْهُمْ مِنْ بِلَادِهِ إِلَى غَيْرِهَا يَتْجُرُ إِلَيْهَا فَعَلَيْهِ الْعُشْرُ مَنْ تَجَرَ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَى الشَّامِ، وَمِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى الْعِرَاقِ، وَمِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى الْمَدِينَةِ أَوْ الْيَمَنِ أَوْ مَا أَشْبَهَ هَذَا مِنَ الْبِلَادِ فَعَلَيْهِ الْعُشْرُ، وَلَا صَدَقَةَ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمَجُوسِ فِي شَيْءٍ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَلَا مِنْ مَوَاشِيهِمْ وَلَا ثِمَارِهِمْ وَلَا زُرُوعِهِمْ، مَضَتْ بِذَلِكَ السُّنَّةُ وَيُقَرُّونَ عَلَى دِينِهِمْ، وَيَكُونُونَ عَلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ وَإِنِ اخْتَلَفُوا فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ مِرَارًا فِي بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ، فَعَلَيْهِمْ كُلَّمَا اخْتَلَفُوا الْعُشْرُ لِأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ مِمَّا صَالَحُوا عَلَيْهِ وَلَا مِمَّا شُرِطَ لَهُمْ، وَهَذَا الَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ذمیوں اور مجوسیوں کی کھجور کے درختوں سے اور انگور کی بیلوں سے اور ان کی زراعت اور مواشی سے زکوٰۃ نہ لی جائے گی، اس لیے کہ زکوٰۃ مسلمانوں پر مقرر ہوئی ان کے اموال پاک کرنے کو، اور ان کے فقیروں کو دینے کو، اور جزیہ اہلِ کتاب پر مقرر ہوا ان کے ذلیل کرنے کو، تو جب تک وہ لوگ اپنی اس بستی میں رہیں جہاں پر ان سے صلح ہوئی تو سوا جزیہ کے اور کچھ ان سے نہ لیا جائے گا، ان اموال میں سے جو لیے پھرتے ہیں تجارت کے واسطے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان پر جزیہ مقرر ہوا تھا اور صلح ہوئی تھی اس امر پر کہ وہ اپنے شہر میں رہیں اور ان کے دشمن سے ان کی حفاظت کی جائے، تو جو شخص ان میں سے اپنے ملک سے نکل کر اور کہیں تجارت کو جائے گا اس سے دسواں حصہ لیا جائے گا، مثلاً مصر والے شام کو جائیں، اور شام والے عراق کو، اور عراق والے مدینہ کو یا یمن کو، تو ان سے دسواں حصہ لیا جائے، اور اہلِ کتاب اور مجوسیوں کے مواشی اور پھلوں اور زراعت میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ ایسے ہی سنت جاری ہے، اور کافروں کو اپنے اپنے دین اور ملت پر قائم رہنے دیں گے، اور ان کے مذہب میں دخل نہ دیا جائے گا، اور جو یہ کافر سال میں کئی بار دار السلام میں مالِ تجارت لے کر آئیں تو جب آئیں گے ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا، اس واسطے کہ اس بات پر ان سے صلح نہیں ہوئی تھی نہ یہ شرط ہوئی تھی کہ محصول مالِ تجارت کا نہ لیا جائے گا۔ اسی طریقہ پر میں نے اپنے شہر کے اہلِ علم کو پایا۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 572، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.