الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
11. بَابٌ في النِّكَاحِ:
11. باب: نکاح پر جھوٹی گواہی گزر جائے تو کیا حکم ہے۔
(11) Chapter. (To play tricks) in marriage.
حدیث نمبر: 6970
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم حدثنا شيبان، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تنكح الايم حتى تستامر، ولا تنكح البكر حتى تستاذن، قالوا: كيف إذنها؟ قال: ان تسكت"، وقال بعض الناس: إن احتال إنسان بشاهدي زور على تزويج امراة ثيب بامرها، فاثبت القاضي نكاحها إياه والزوج يعلم انه لم يتزوجها قط، فإنه يسعه هذا النكاح، ولا باس بالمقام له معها.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، قَالُوا: كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنِ احْتَالَ إِنْسَانٌ بِشَاهِدَيْ زُورٍ عَلَى تَزْوِيجِ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ بِأَمْرِهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا إِيَّاهُ وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَتَزَوَّجْهَا قَطُّ، فَإِنَّهُ يَسَعُهُ هَذَا النِّكَاحُ، وَلَا بَأْسَ بِالْمُقَامِ لَهُ مَعَهَا.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بیوہ سے اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے اور کسی کنواری سے اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہا اگر کسی شخص نے دو جھوٹے گواہوں کے ذریعہ حیلہ کیا (اور یہ جھوٹ گھڑا) کہ کسی بیوہ عورت سے اس نے اس کی اجازت سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے بھی اس مرد سے اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا جبکہ اس مرد کو خوب خبر ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے تو یہ نکاح جائز ہے اور اس کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنا جائز ہو جائے گا۔

Narrated Abu Haraira: Allah's Apostle said, "A lady slave should not be given in marriage until she is consulted, and a virgin should not be given in marriage until her permission is granted." The people said, "How will she express her permission?" The Prophet said, "By keeping silent (when asked her consent)." Some people said, "If a man, by playing a trick, presents two false witnesses before the judge to testify that he has married a matron with her consent and the judge confirms his marriage, and the husband is sure that he has never married her (before), then such a marriage will be considered as a legal one and he may live with her as husband."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 100


   صحيح البخاري5136عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6970عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا كيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6968عبد الرحمن بن صخرلا تنكح البكر حتى تستأذن لا الثيب حتى تستأمر فقيل يا رسول الله كيف إذنها قال إذا سكتت
   صحيح مسلم3473عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   جامع الترمذي1107عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   سنن أبي داود2092عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر إلا بإذنها قالوا يا رسول الله وما إذنها قال أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3267عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأذن لا تنكح البكر حتى تستأمر قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال إذنها أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3269عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال أن تسكت
   سنن ابن ماجه1871عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   بلوغ المرام837عبد الرحمن بن صخر لا تنكح الأيم حتى تستأمر ،‏‏‏‏ ولا تنكح البكر حتى تستأذن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 837  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ لئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہے؟ فرمایا اس کا خاموش رہنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 837»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما، حديث:5136، ومسلم، النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق.....، حديث:1419.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے۔
وہ عورت جسے اسلام سے پہلے معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا‘ اسلام نے اسے پستی سے اٹھا کر بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اس کی اہمیت کو دوبالا کیا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو کجا اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔
سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔
2.شریعت محمدیہ نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیدہ سے مشورہ ضرور کیا جائے اور کنواری سے اس کی اجازت حاصل کی جائے۔
3. شوہر دیدہ کی رضا ومشورے کے بغیر اس کا نکاح نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں اس کے مشورے اور اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 837   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1107  
´کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1107]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔

2؎:
کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔

3؎:
اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے،
عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ 4؎:
ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ»  ہے۔

5؎:
ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے «الأیم أحق بنفسہامن ولیہا»  کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے،
اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6970  
6970. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6970]
حدیث حاشیہ:
ایسے جھوٹ اور حیلہ پر اس کے جواز کا فیصلہ دینے والے قاضی صاحب عنداللہ سخت ترین سزا کے حق دار ہوں گے۔
اللہ ایسے حیلہ سے ہمیں بچائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6970   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6970  
6970. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6970]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے انداز سے حیلہ سازوں کی قلعی کھولتے ہیں۔
پہلی حدیث میں ایک معصوم کنواری کے متعلق ایک بدنام زمانہ حیلے کا ذکر کیا تھا اور اب ایک شوہر دیدہ عورت کے ساتھ مکروفریب کی چال کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کر دے کہ میں نے فلاں عورت سے اس کے حکم کے مطابق نکاح کیا ہے اور عدالت بھی گواہی سن کر اس مرد کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ شوہر دیدہ عورت اس کی بیوی ہوگئی۔
اس کے ساتھ جماع کرنا اس کے لیے حلال ہوگا اور آخرت میں اس کے لیے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے نافذ ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسا مکار انسان، جھوٹے گواہ اور اس کے جواز کا فیصلہ دینے والا جج اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا کے حقدار ہوں گے۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے نکاح نہیں تھا لیکن قاضی کا فیصلہ کرنا گویا نکاح کرنا ہے، یعنی قاضی کو ولایت نکاح حاصل ہے اور اس نے اپنا اختیار استعمال کر کے فیصلہ دیا ہے جو ہر اعتبار سے نافذ ہوگا۔

ان کے ہاں معاملات کی دو قسمیں ہیں:
ایک املاک مرسلہ اور دوسرے عقود وغیرہ۔
دوسری قسم میں قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی طور پرنافذ ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جب میں کسی کی چرب زبانی کی بنا پر ا سکے حق میں فیصلہ دے دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قطعی فرمان دونوں قسم کے معاملات کے لیے ہے، لہذا عدالتی فیصلہ جھگڑا نمٹانے کے لیے ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی طور پر اسے نافذ کرنا سینہ زوری ہے۔
دراصل اس قسم کے فیصلے ہی اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہین کاش کہ حیلہ گر حضرات ہوش کے ناخن لیں اور باطل کا دفاع کرنے کے بجائے حق بات کو اختیار کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6970   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.