الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
کھانے سے متعلق احکام و مسائل
4. کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے
حدیث نمبر: 722
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا النضر بن شميل، نا شعبة، نا عدي وهو ابن ثابت، قال: سمعت ابا حازم، يحدث، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((الكافر ياكل في سبعة امعاء والمؤمن ياكل في معاء واحد)).أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، نا شُعْبَةُ، نا عَدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعَاءٍ وَاحِدٍ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، جبکہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر: 211»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 722  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، جبکہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:722]
فوائد:
اہل علم نے مذکورہ، حدیث کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں: کیا واقعتا ہی اہل کفر زیادہ کھاتے ہیں اور مومن کم؟ یا اس سے مراد جملہ حیاتیاتی امور ہیں جن میں عملی طور پر صاحب ایمان اور ایک صاحب کفر کے درمیان زمین وآسمان کا تفاوت نظر آتا ہے۔ اس کی مختلف توجیہات اہل علم نے بیان کی ہیں:
اول: کافر کی سات آنتوں سے مراد اس کی سات خصلتیں ہیں: (1)حرص (2)لالچ (3)لمبی امید (4)طمع (5)بدتمیز طبع (6)حسد (7) بھاری جسم والا ہونا۔
ثانی: یہ حکم بعض مومنوں اور بعض کفار کے لیے ہے، اس سے جنس مومن اور جنس کافر مراد نہیں ہے۔
ثالث: حدیث میں مومن سے مراد کامل مومن ہے جو (دنیا میں) نفس پرستی سے اعراض کرتے ہوئے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک استعمال کرتا ہے۔
رابع: بعض مومن ایک آنت میں کھاتے ہیں اور اکثر اہل کفر سات آنتوں میں کھاتے ہیں۔
خامس: مولانا داود راز، شاہ ولی اللہ; کے حوالہ سے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا مومن کی شان یہی ہے کہ کم کھانا ایمان کی عمدہ سے عمدہ خصلت ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔
(صحیح بخاري، محمد داود راز: 7؍ 130)
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث کا ماحاصل یہ ہے کہ دنیا میں تھوڑا کچھ حاصل کر کے اس پر قناعت کرنا اور دنیا میں زہد کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ (شرح مسلم للنووی: ص1561)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 722   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.