الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خبر واحد کے بیان میں
The Book About The Information Given by One Person
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:
1. باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
(1) Chapter. What is said regarding the acceptance of the information given by one truthful person concerning Adhan, Salat (prayer), Saum (fasting), and all other obligations and laws prescribed by Allah.
حدیث نمبر: 7247
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، عن يحيى، عن التيمي، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يمنعن احدكم اذان بلال من سحوره فإنه يؤذن، او قال: ينادي ليرجع قائمكم وينبه نائمكم وليس الفجر ان يقول هكذا، وجمع يحيى كفيه حتى يقول هكذا، ومد يحيى إصبعيه السبابتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ، أَوْ قَالَ: يُنَادِي لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا، وَجَمَعَ يَحْيَى كَفَّيْهِ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا، وَمَدَّ يَحْيَى إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَتَيْنِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے، ان سے سلیمان تیمی نے، ان سے ابوعثمان نہدی نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ صرف اس لیے اذان دیتے ہیں یا نداء کرتے ہیں تاکہ جو نماز کے لیے بیدار ہیں وہ واپس آ جائیں اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہو جائیں اور فجر وہ نہیں ہے جو اس طرح لمبی دھار ہوتی ہے۔ یحییٰ نے اس کے اظہار کے لیے اپنے دونوں ہاتھ ملائے اور کہا یہاں تک کہ وہ اس طرح ظاہر ہو جائے اور اس کے اظہار کے لیے انہوں نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو پھیلا کر بتلایا۔

Narrated Ibn Mas`ud: Allah's Apostle said, "The (call for prayer) Adhan of Bilal should not stop anyone of you from taking his Suhur for he pronounces the Adhan in order that whoever among you is praying the night prayer, may return (to eat his Suhur) and whoever among you is sleeping, may get up, for it is not yet dawn (when it is like this)." (Yahya, the sub-narrator stretched his two index fingers side ways).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 91, Number 353


   صحيح البخاري7247عبد الله بن مسعودلا يمنعن أحدكم أذان بلال من سحوره فإنه يؤذن أو قال ينادي ليرجع قائمكم وينبه نائمكم
   صحيح البخاري621عبد الله بن مسعودلا يمنعن أحدكم أو أحدا منكم أذان بلال من سحوره فإنه يؤذن أو ينادي بليل ليرجع قائمكم ولينبه نائمكم
   صحيح مسلم2541عبد الله بن مسعودلا يمنعن أحدا منكم أذان بلال أو قال نداء بلال من سحوره فإنه يؤذن
   سنن أبي داود2347عبد الله بن مسعودلا يمنعن أحدكم أذان بلال من سحوره فإنه يؤذن أو قال ينادي ليرجع قائمكم وينتبه نائمكم وليس الفجر أن يقول هكذا
   سنن النسائى الصغرى642عبد الله بن مسعودبلالا يؤذن بليل ليوقظ نائمكم وليرجع قائمكم وليس أن يقول هكذا يعني في الصبح
   سنن النسائى الصغرى2172عبد الله بن مسعودبلالا يؤذن بليل لينبه نائمكم ويرجع قائمكم وليس الفجر أن يقول هكذا وأشار بكفه ولكن الفجر أن يقول هكذا وأشار بالسبابتين
   سنن ابن ماجه1696عبد الله بن مسعودلا يمنعن أحدكم أذان بلال من سحوره فإنه يؤذن لينتبه نائمكم وليرجع قائمكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 642  
´نماز کا وقت ہوئے بغیر اذان دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 642]
642 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر طلوع ہونے سے قبل اذان کہتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فجر کاذب کا وقت ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں اشارہ ہے۔ یہ اذان دراصل صبح کی نماز کی تیاری کے لیے ہوتی تھی تاکہ لوگ اپنی مصروفیات (قضائے حاجت، غسل وغیرہ) سے دوسری اذان تک فارغ ہو جائیں، دوسری اذان کے بعد مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز اول وقت پر پڑھی جا سکے۔
➋ پہلی اذان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو تہجد وغیرہ پڑھ رہے ہیں، وہ نماز کو مختصر کر دیں اور وتر وغیرہ پڑھ لیں کیونکہ فجر کا وقت ہونے والا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 642   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1696  
´سحری دیر سے کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لیے) جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلا جائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1696]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
فجر کے وقت دو اذانیں مسنون ہیں ایک اذا ن صبح صا دق سے پہلے دی جا ئے جیسے عرف عام میں سحری کی اذ ان کہا جا تا ہے اور دوسری اذان صبح صادق ہونے پر نما ز فجر کے لئے دی جا ئے
(2)
بہتر ہے کہ دونو ں اذانو ں کے لئے دو الگ الگ مئوذن مقرر کیے جا ئیں تا کہ لو گو ں کو آواز سن کر معلو م ہو جا ئے کہ اب کون سی اذان ہو رہی ہے مسجد نبوی میں دوسری اذان یعنی نما ز فجر کی اذان کے لئے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقرر تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، باب أذان الأعمیٰ إذا کان له من یخبرہ، حدیث: 617)

(3)
پہلی اذان کے یہ فوائد ذکر کیے گے ہیں کہ جو شخص سو رہا ہے وہ جا گ اٹھے اگر سحری کھانی ہو تو سحری کھا لے ورنہ نماز فجر کی تیاری کرے اور جو شخص تہجد پڑھ رہا ہے وہ اس سے فا رغ ہو کر مذکورہ کامو ں کے لئے تیا ری کرے اور دیگر لو گ قضا ئے حا جت وغیرہ فارغ ہو کر وضو کر کے بر وقت مسجد میں پہنچ جائیں تا کہ نماز با جماعت میں شریک ہو سکیں۔

(4)
عہد رسا لت میں دو اذانوں کا یہ سلسلہ مستقل معمول تھا صرف رمضان ہی کے مہینے میں ایسا نہیں ہو تا جیسا کے عا م طو ر پر سمجھا جا تا ہے اس لئے صرف رمضا ن میں اس کا اہتمام کر نا صحیح نہیں ہے
(5)
نبی ﷺ نے صبح کاذب اور صبح صادق کا فرق اشارے سے واضح فر مایا پہلے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کا رخ اوپر کی طرف زیا دہ ہو اسے صبح کاذب کہتے ہیں دوسرے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی اطراف میں پھیلے یہ صبح صادق ہو تی ہے۔

(6)
با ت سمجھانے کے لئے اشارہ کرنا درست ہے تاہم خطبے میں دونوں ہا تھ ہلانا اور نعرے وغیرہ لگوانا مناسب نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1696   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7247  
7247. سیدنا ابن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں کسی کو بلال ؓ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ اس لیے اذان دیتا ہے تاکہ جو تہجد کے قیام میں مصروف ہیں وہ واپس آجائیں اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہوجائیں اور فجر وہ نہیں جو اس طرح(لمبی دھاری) ہوتی ہے۔ (راؤی حدیث) یحیٰی نے اس کے اظہار کے لیے اپنے دونوں ہاتھ ملائے کہ آپ نےفرمایا: فجر وہ ہے جو پھیل جائے۔ (راوی حدیث) یحیٰی نے اس کے اظہار کے لیے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو پھیلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7247]
حدیث حاشیہ:
یعنی چوڑے آسمان کے کنارے کنارے پھیلی ہوئی صبح صادق ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7247   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.