الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
14. اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ہدایت
حدیث نمبر: 766
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا حسين بن علي الجعفي، نا زائدة، عن ميسرة الاشجعي، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن قرى ضيفه))، فقيل: يا رسول الله وما حق الضيف؟ قال: ((ثلاث فما كان فوقهن او بعدهن فهو صدقة، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر شهد امرا فليتكلم بخير او ليسكت، استوصوا بالنساء فإنهن خلقن من ضلع، وإن اعوج شيء في الضلع اعلاه فإن اردت إقامته كسرته وإن تركته لم يزل اعوج، فاستوصوا بالنساء خيرا)).أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، نا زَائِدَةُ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ قِرَى ضَيْفِهِ))، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّ الضَّيْفِ؟ قَالَ: ((ثَلَاثٌ فَمَا كَانَ فَوْقَهُنَّ أَوْ بَعْدَهُنَّ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ شَهِدَ أَمْرًا فَلْيَتَكَلَّمْ بِخَيْرٍ أَوْ لِيسْكُتْ، اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلْعِ أَعْلَاهُ فَإِنْ أَرَدْتَ إِقَامَتَهُ كَسَرْتَهُ وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے ہمسائے کو ایذا نہ پہنچائے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے مہمان کی خوب ضیافت کرے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مہمان کا حق کیا ہے؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین (دن حق ضیافت) پس جو ان (تین دنوں) سے زیادہ ہو یا ان کے بعد ہو تو وہ صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ خیر و بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے، عورتوں کے بارے میں خیر و بھلائی کی وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے، اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو اسے توڑ ڈالو گے، اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، پس تم عورتوں کے بارے میں خیر و بھلائی کی وصیت قبول کرو۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، رقم: 1468.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 766  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے ہم سائے کو ایذا نہ پہنچائے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے مہمان کی خوب ضیافت کرے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مہمان کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین (دن حق ضیافت) پس جو ان (تین دنوں) سے زیادہ ہو یا ان کے بعد ہو تو وہ صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ خیر و بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے، عورتوں کے بارے میں خیر و بھلائی کی وصیت قبول کرو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:766]
فوائد:
(1).... مذکورہ حدیث میں پڑوسی کے حقوق کی نگہداشت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
(2).... اکرام ضیف: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مہمان کی مہمان نوازی کرنی چاہیے اور تین دن تک مہمان کو کھلانا اور ٹھہرانا اس کا حق ہے اور مہمان کو بھی چاہیے کہ زیادہ دیر تک میزبان کے ہاں نہ ٹھہرے، ہاں اگر میزبان مجبور کرے یا قریبی تعلق ہو تو کوئی حرج نہیں کہ تین دنوں سے زیادہ ٹھہر سکتا ہے۔
(3).... زبان کی حفاظت کرنا: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا انسان کو اچھی بات کرنی چاہیے وگرنہ خاموش ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ﴾ (قٓ: 18).... آدمی جو بات بھی منہ سے بولتا ہے، اس کے پاس ایک تیار نگہبان موجود ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ((مَنْ صَمَتَ نَجَا)) (سلسلة الصحیحة، رقم: 536) جو خاموش رہا نجات پاگیا۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا نجات کیا ہے؟ فرمایا: ((اَمْسِکَ عَلَیْكَ لِسَانَکَ۔)) (صحیح ترمذی، رقم: 1961).... اپنی زبان اپنے آپ پر روک کر رکھ۔
اور خاموشی جو نجات کا باعث ہے، یہ حرام، مکروہ، بے کار اور بے فائدہ باتوں سے خاموش رہے۔ ورنہ زبان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایمان وسلام کا اظہار بھی زبان سے ہوتا ہے۔ تلاوت و ذکر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس کے ذریعے سرانجام پاتے ہیں۔
(4).... استوصوء بالنساء کے معنی ہیں: عورتوں کے متعلق میری وصیت قبول کرو اور اس پر عمل کرو یعنی ہر صورت میں عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ (النسآء: 19) اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔
صحیح مسلم میں حدیث ہے: مومن مرد (شوہر) مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔ (صحیح مسلم، رقم:1469)
کیونکہ عورت فطری طور پر کمزور ہے تو زیادہ عقل والے اور بلند حوصلے والے مرد کو چاہیے کہ تحمل اور عفو و درگزر سے کام لے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 766   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.