الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
16. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ للعالمین ہونا
حدیث نمبر: 770
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا جرير، عن إبراهيم الهجري، عن ابي عياض، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إنما انا بشر اغضب كما يغضب البشر، والعن كما يلعن البشر، فايما عبد سببته او لعنته في غير كنهه فاجعله له رحمة)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ، وَأَلْعَنُ كَمَا يَلْعَنُ الْبَشَرُ، فَأَيُّمَا عَبْدٍ سَبَبْتُهُ أَوْ لَعَنْتُهُ فِي غَيْرِ كُنْهِهِ فَاجْعَلْهُ لَهُ رَحْمَةً)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں، جس طرح انسان ناراض ہوتا ہے میں بھی اسی طرح ناراض ہوتا ہوں، لعنت کرتا ہوں جس طرح انسان لعنت کرتا ہے، پس میں نے جس بھی شخص / غلام کو برا بھلا کہا: ہو یا اس پر لعن طعن کی ہو جس کا وہ مستحق نہ تھا تو (اے اللہ) اس اس کے لیے رحمت بنا دے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب البروالصلة، باب من لعنه النبى صلى الله عليه وسلم الخ، رقم: 2601. سنن دارمي، رقم: 2765. مسند احمد: 390/2.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 770  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں، جس طرح انسان ناراض ہوتا ہے میں بھی اسی طرح ناراض ہو تا ہوں، میں بھی لعنت کرتا ہوں جس طرح انسان لعنت کرتا ہے، پس میں نے جس بھی شخص؍ غلام کو برا بھلا کہا ہو یا اس پر لعن طعن کی ہو جس کا وہ مستحق نہ تھا تو (اے اللہ) اسے اس کے لیے رحمت بنا دے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:770]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعائیں بھی اپنی امت کے لیے باعث رحمت و تزکیہ بن جاتی ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو جہان والوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 107) اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبة: 128)تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں، جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری تکلیف نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں۔ ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔
ایسی عظیم ہستی کے متعلق کون یہ گمان کر سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو برا بھلا کہا ہو یا لعنت بھیجی ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے دشمنوں کو بددعا کی بجائے دعائیں دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
کھا کے اغیار سے پتھر وہ دعا دیتے ہیں
رحمت عام کا پیغام سنا دیتے ہیں
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر کس قدر مشفق اور ان کی مصلحت وخیر خواہی کے لیے کس قدر کوشاں تھے۔ نیز ان کے لیے جو چیز نفع بخش ہوتی اس کی خواہش کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی مسلمان کے حق میں نقصان کی دعا کرنا جو اس کا اہل ومستحق نہ ہو، آپ کی یہی نقصان کی دعا مسلمان کے حق میں رحمت وپاکیزگی اور کفارے کا ذریعہ بن جائے گی۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومنافقین کے حق میں جو بددعا کی وہ ان کے لیے رحمت نہیں ہوئی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اہل ومستحق شخص کے لیے دعاء ضرر کیوں فرمائی؟ تو علامہ نووی رحمہ اللہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمات زجر جو بیان فرمائے ہیں تو ان سے حقیقت مقصود نہیں ہے۔ بلکہ وہ اہل عرب کے ان کلمات کی طرح ہیں جنہیں وہ بغیر معنی کی نیت کے بول دیتے ہیں۔ جیسے تَرِبَتْ یَمِیْنُکَ، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں وغیرہ۔ اور ایسے کلمات کا صدور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم ہوا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاحش ومتفحش نہ تھے، نہ (خواہ مخواہ) لعنت کرنے والے تھے۔ اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لینے والے تھے۔ (جیسا کہ حدیث میں آتا ہے) صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: قبیلہ دوس پر لعنت کریں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! دوس کو ہدایت دے۔ اور فرمایا: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ (میری حیثیت کو) نہیں جانتے۔ (شرح مسلم، للنووي: ص 1854، 1853 طبع اولی دارابن حزم)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 770   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.