الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الأقوال
333. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ‏:‏ وَيْلَكَ
333. کسی کو ”ويلك“ کہنے کا حکم
حدیث نمبر: 775
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سهل بن بكار، قال‏:‏ حدثنا الاسود بن شيبان، عن خالد بن سمير، عن بشير بن نهيك، عن بشير، وكان اسمه زحم بن معبد، فهاجر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال‏: ”ما اسمك‏؟‏“ قال‏:‏ زحم، قال‏: ”بل انت بشير“، قال‏:‏ بينما انا امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر بقبور المشركين فقال‏: ”لقد سبق هؤلاء خير كثير“ ثلاثا، فمر بقبور المسلمين فقال‏: ”لقد ادرك هؤلاء خيرا كثيرا“ ثلاثا، فحانت من النبي صلى الله عليه وسلم نظرة، فراى رجلا يمشي في القبور، وعليه نعلان، فقال‏: ”يا صاحب السبتيتين، الق سبتيتيك“، فنظر الرجل، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم خلع نعليه فرمى بهما‏.‏حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ بَشِيرٍ، وَكَانَ اسْمُهُ زَحْمَ بْنَ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ‏: ”مَا اسْمُكَ‏؟‏“ قَالَ‏:‏ زَحْمٌ، قَالَ‏: ”بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ“، قَالَ‏:‏ بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ‏: ”لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاَءِ خَيْرٌ كَثِيرٌ“ ثَلاَثًا، فَمَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ‏: ”لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“ ثَلاَثًا، فَحَانَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظْرَةٌ، فَرَأَى رَجُلاً يَمْشِي فِي الْقُبُورِ، وَعَلَيْهِ نَعْلاَنِ، فَقَالَ‏: ”يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَيْكَ“، فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَرَمَى بِهِمَا‏.‏
حضرت بشیر بن معبد سدوسی، جن کا نام زحم بن معبد تھا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: زحم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا نام (آج کے بعد) بشیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: یقیناً ان لوگوں سے بہت زیادہ خیر چھوٹ گئی ہے۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: انہوں نے یقیناً خیر کثیر پالی ہے۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قبرستان میں جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سبتیہ جوتے پہننے والے، اپنے جوتے اتار دو۔ چنانچہ اس آدمی نے دیکھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نظر آئے تو اس نے جوتے اتار کر پھینک دیے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الجنائز، باب المشي بين القبور فى النعل: 3230 و النسائي: 2048 و ابن ماجه: 1568 - انظر الإرواء: 760»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 775  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس روایت کا بظاہر باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ابو داود (۳۲۳۰)کی روایت میں ہے ویحک الق سبتیتیک تیرے لیے بربادی ہو اپنے سبتی جوتے اتار دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری نے ویحک والی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(۲) بہتر اور افضل یہ ہے کہ قبرستان میں جوتے اتار دیے جائیں جیسا کہ آپ نے اس شخص کو حکم دیا، تاہم اگر کوئی پہن لیتا ہے تو اس کی گنجائش بھی موجود ہے کیونکہ آپ سے قبرستان میں جوتے پہننے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ گویا نہی تنزیہی ہے اور فعل جواز کے لیے ہے۔
(۳) اس روایت سے معلوم ہوا کہ کافر اور مسلمان کو ایک ساتھ نہیں دفنانا چاہیے۔ بلکہ مسلم اور غیر مسلم کا قبرستان الگ الگ ہونا چاہیے۔
(۴) جس نام کے معنی سے کسی بدشگونی کا خدشہ ہو یا بولنے کے اعتبار سے وہ نام مناسب نہ ہو تو اسے بدل دینا چاہیے، تاہم ہر نو مسلم کا نام بدلنا ضروری نہیں ہے بشرطیکہ وہ شرکیہ نہ ہو۔
(۵) بعض نے سبتی اور دوسرے جوتوں کا فرق کیا ہے لیکن اس فرق کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 775   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.