الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: فطری (پیدائشی) سنتوں کا تذکرہ
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
62. بَابُ : التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْوُضُوءِ
62. باب: وضو کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔
Chapter: Saying Bismillah When Performing Wudu
حدیث نمبر: 78
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن ثابت، وقتادة، عن انس، قال: طلب بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وضوءا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل مع احد منكم ماء؟ فوضع يده في الماء، ويقول: توضئوا بسم الله، فرايت الماء يخرج من بين اصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم". قال ثابت: قلت لانس: كم تراهم؟ قال: نحوا من سبعين.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قال: طَلَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مَاءٌ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْمَاءِ، وَيَقُولُ: تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ". قَالَ ثَابِتٌ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ تُرَاهُمْ؟ قَالَ: نَحْوًا مِنْ سَبْعِينَ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام نے وضو کا پانی تلاش کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ (تو ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یہ فرماتے ہوئے پانی میں ڈالا: بسم اللہ کر کے وضو کرو میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا تھا، حتیٰ کہ ان میں سے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے؟ تو انہوں نے کہا: ستر کے قریب ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، حدیث ثابت عن أنس، (تحفة الأشراف: 484)، وحدیث قتادة عن أنس، (تحفة الأشراف: 1347)، (نیز ملاحظہ ہو: 76) (صحیح الاسناد)»

وضاحت:
۱؎: اس باب اور اس سے پہلے والے باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ بار پیش آیا تھا، «واللہ اعلم بالصواب» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري3574أنس بن مالكتوضأ ثم مد أصابعه الأربع على القدح ثم قال قوموا فتوضئوا فتوضأ القوم حتى بلغوا فيما يريدون من الوضوء وكانوا سبعين أو نحوه
   صحيح البخاري3572أنس بن مالكوضع يده في الإناء جعل الماء ينبع من بين أصابعه فتوضأ القوم قلت لأنس كم كنتم قال ثلاث مائة أو زهاء ثلاث مائة
   صحيح البخاري3575أنس بن مالكوضع كفه فصغر المخضب أن يبسط فيه كفه فضم أصابعه وضعها في المخضب فتوضأ القوم كلهم جميعا قلت كم كانوا قال ثمانون رجلا
   صحيح البخاري3573أنس بن مالكوضع رسول الله يده في ذلك الإناء فأمر الناس أن يتوضئوا منه رأيت الماء ينبع من تحت أصابعه فتوضأ الناس حتى توضئوا من عند آخرهم
   صحيح البخاري200أنس بن مالكوضع أصابعه فيه جعلت أنظر إلى الماء ينبع من بين أصابعه قال أنس فحزرت من توضأ ما بين السبعين إلى الثمانين
   صحيح البخاري169أنس بن مالكوضع رسول الله في ذلك الإناء يده وأمر الناس أن يتوضئوا منه رأيت الماء ينبع من تحت أصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم
   صحيح البخاري195أنس بن مالكأتي رسول الله بمخضب من حجارة فيه ماء فصغر المخضب أن يبسط فيه كفه فتوضأ القوم كلهم
   صحيح مسلم5941أنس بن مالكجعلت أنظر إلى الماء ينبع من بين أصابعه
   صحيح مسلم5943أنس بن مالكوضع كفه فيه جعل ينبع من بين أصابعه فتوضأ جميع أصحابه قال قلت كم كانوا يا أبا حمزة قال كانوا زهاء الثلاث مائة
   صحيح مسلم5942أنس بن مالكوضع رسول الله في ذلك الإناء يده وأمر الناس أن يتوضئوا منه رأيت الماء ينبع من تحت أصابعه فتوضأ الناس حتى توض
   جامع الترمذي3631أنس بن مالكرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه فتوضأ الناس حتى توضئوا من عند آخرهم
   سنن النسائى الصغرى78أنس بن مالكوضع يده في الماء ويقول توضئوا بسم الله رأيت الماء يخرج من بين أصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم
   سنن النسائى الصغرى76أنس بن مالكرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم
   المعجم الصغير للطبراني240أنس بن مالكتوضأ رسول الله ثم مد أصابعه على القدح فتوضئوا كلهم حتى بلغوا ما يريدون
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم57أنس بن مالكفرايت الماء ينبع من تحت اصابعه، فتوضا الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 57  
´ایک برتن سے بہت سے لوگوں کا وضو کرنا جائز ہے`
«. . . مالك عن إسحاق بن عبد الله بن ابى طلحة عن انس بن مالك قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك الإناء يده وامر الناس ان يتوضؤوا منه. قال: فرايت الماء ينبع من تحت اصابعه، فتوضا الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، عصر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا مگر پانی نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کاحکم دیا۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی پھوٹ رہا تھا پھر (لشکر کے) آخری آدمی تک تمام لوگوں نے اس پانی سے وضو کر لیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 57]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 169، ومسلم 2279، من حديث مالك به]

تفقه
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے بطور معجزہ پانی کا چشمہ جاری کر دیا تھا لہٰذا یہ حدیث بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی و رسول ہونے کی بےشمار دلیلوں میں سے ایک عظیم الشان دلیل ہے۔
➋ اہل ایمان کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ پر مکمل ایمان لاتے ہیں، کسی قسم کا شک نہیں کرتے جبکہ منکرین کتاب و سنت کا یہ وطیرہ ہے کہ اپنی نام نہاد عقل کی وجہ سے قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور معجزات ثابتہ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ انکار، ملحدانہ تاویلات اور باطنی افکار کے درایتی و درانتی معیار کی وجہ سے انھیں رد کر دیتے ہیں۔
➌ دعا کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب کا حتی الوسع اہتمام ہونا چاہئے۔
➍ اللہ تعالیٰ نیچر اور اس کے قوانین کا خالق ہے، وہ جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
➎ ایک برتن سے بہت سے لوگوں کا وضو کرنا جائز ہے۔
➏ بعض صحیح روایات میں آیا ہے کہ وضو کرنے والوں کی تعداد ستّر سے اسّی کے درمیان تھی۔
➐ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں مثلاً بیعت رضوان کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے ایک برتن میں پانی جاری فرمایا جس سے پندرہ سو کے قریب صحابہ سیراب ہوئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ۔
➑ حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے کہ پانی مل جائے اور اس سے وضو کر کے نماز پڑھی جائے اور تیمّم صرف اس وقت جائز ہے جب پانی نہ ملے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 169  
´ نماز کا وقت ہو جانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آ گیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انہیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی (برتن) سے وضو کریں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 169]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث اور باب میں اختلاف نظر آ رہا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق انداز سے ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
◈ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
«التنبيه على ان الوضؤ لا يجب قبل الوقت» [المتواري ص 70]
اس باب میں اس طرف تنبیہ کی گئی ہے کہ وضوء وقت سے قبل واجب نہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اراد الاستدلال على انه لايجب طلب الماء للتطهير قبل دخول الوقت، لان النبى صلى الله عليه وسلم لم ينكر عليهم التأخير فدل على الجواز» [فتح الباري ج1ص 220]
امام بخاری رحمہ اللہ کا طریقہ استدلال یہ ہے کہ پاکیزگی کا پانی (یعنی وضوء کا) وقت سے قبل حاصل کرنا واجب نہیں۔

◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ باب میں ذکر ہے «فالتمس الماء» اور تحت الباب جو حدیث ہے اس میں مذکور ہے «فالتمس الناس الوضوء» اور یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو نزول آیت تییم میں ہے جس کا ذکر کتاب التیمم میں مصنف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص 50]
↰ لہٰذا اگر باب کی طرف نگاہیں دوڑائیں تو وہاں بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب نماز کا وقت آ جائے تو پانی تلاش کرنا اور حدیث بھی اسی طرف ہی اشارہ کرتی ہے کہ جب نماز کا وقت آ گیا تھا تب ہی صحابہ کرام پانی کی تلاش میں نکلے یہی مناسبت ہے باب اور حدیث کی۔

فائدہ:
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ذکر ہے یاد رہے کہ معجزہ دکھا نا صرف اللہ تعالیٰ کی ہی منشاء پر موقوف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
« ﴿وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ » [غافر: 78]
کسی رسول کے اختیار میں نہیں کہ وہ کوئی معجزہ دکھا سکے مگر جب اللہ چاہے۔

مغربی تعلیم سے متاثر زدہ حضرات نے کئی مرتبہ معجزات کا انکار کیا ہے مستشرقین کا تو وطیرہ ہی اسلام پر طعن کرنا ہے، مگر نام نہاد مسلمان کہلانے والے بھی اپنے باطل نظریات کی ترقی و ترویج کیلئے معجزات کا انکار کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کے رد میں شیخ السلام رحمہ اللہ نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام کتاب النبوات اور الصفدیۃ جس میں آپ نے ان معجزات کے منکروں کا علمی رد فرمایا ہے، قرآن مجید میں نصوص کے ساتھ معجزات کا ذکر موجود ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی ان گنت واقعات معجزات پر دال ہیں جس کا انکار نفس پرستی اور کفر کے سوا کچھ نہیں۔ مثلاً
➊ آگ کا ٹھنڈا ہونا ابراھیم علیہ السلام کے لیے۔ [الانبياء 69/21-70]
➋ عصائے موسیٰ اور ید بیضا۔ [النحل۔ طه 20/20-21]
➌ دریا کا پھٹنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کیلئے۔ [البقرة: 50/2]
➍ بارہ چشموں کا پھٹنا بنی اسرائیل کے لئے۔ [البقرۃ: 20/2]
➎ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات۔ [مريم: 14/19، 34، النساء: 107]
➏ مردوں کو زندہ کرنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ۔ [المائده: 110/5]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات:
➊ انشقاق قمر، [القمر: 1/54]
➋ واقعہ اسراء [اسراء: 1/17]
↰ ان کے علاوہ کئی معجزات کا مزید ذکر ملتا ہے اب انکا انکار کفر کے سوا کچھ نہیں۔

موجودہ دور میں ایسے کئی گمراہ نظریات کے حامی موجود ہیں جو مغربی تعلیم سے متاثر ہو کر اتنے اندھے ہو گئے کہ مسلمان کا لبادہ اوڑھ کر معجزات کا انکار کر بیٹھے کیوں کہ اہل مغرب کے ہاں جو بات مافوق الفطرت (Supper Natural) یا خرق عادت ہو وہ اسے ناممکن یا خلاف عقل سمجھ کر رد کر دیا کر تے ہیں۔ اس مغربی روشنی میں بہنے والے سرسید احمد خان بھی سرفہرست ہیں جو نے مغربی تعلیم کی آبیاری اور اس کی ترویج کے لئے کئی معجزات کا انکار کر بیٹھے۔ مزید یہ کہ اسی دور میں آپ نے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی اور اپنے نظریات کے حامل مذموم عقائد کو عوام تک ارسال کیا۔ آپ نے نظریہ ارتقاء اور اس جیسے کئی بناوٹی (Theory) سے متاثر تھے اور ان نظریات کے حامل تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے آپ نے!
➊ انبیاء کے معجزات کا انکار کیا یا پھر اس کی غلط تاویل پیش کی۔
➋ معجزات کے علاوہ وہ باتیں جو خوارق عادت میں سے تھیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اس میں ایسی تاویلات پیش کیں جو مضحکہ خیز ہیں۔
➌ ڈارون نظریہ سے متاثر ہو کر آدم علیہ السلام کا فرد واحد یا نبی ہونے کا بھی انکار کر دیا
➍ کئی مقامات پر فرشتوں کے معاملے میں بھی عجیب باتیں لکھیں جس سے ایمان بالغیب پر زد پڑتی ہے۔
➎ دور جدید کے مسائل کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کا حلیہ بگاڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔
ایسے لوگوں سے آج بھی دینی علم حاصل کیا جا رہا ہے جو کہ گمراہی کی دلیل ہے سچ کہا تھا امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے! صغیر (عقل پرست) سے علم حاصل کیا جائے گا۔ [كتاب الذهد، عبدالله بن مبارك ص 61]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 121   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 76  
´برتن سے وضو کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عصر کا وقت قریب ہو گیا تھا، تو لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر وہ پانی نہیں پا سکے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھوڑا سا وضو کا پانی لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا، اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا ہے، حتیٰ کہ ان کے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 76]
76۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مطلب یہ ہے کہ برتن سے چلو لے کر وضو کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طریقے سے بار بار ہاتھ کو برتن میں داخل کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہاتھ کو لگا ہوا سابقہ پانی بھی برتن میں گرے گا، مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔
➋ اس قسم کے بہت سے واقعات صحیح احادیث میں مذکور ہیں کہ تھوڑا پانی بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا حتیٰ کہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے پانی کو بڑھتا ہوا دیکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 291، 290/2]
اسی طرح کئی دفعہ تھوڑا کھانا بھی بہت سے افراد کو کفایت کر گیا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4102]
لہٰذا ان معجزات کا انکار کرنا دوپہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس چیز کو برکت کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے تو وہاں اس جہان کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اگر منی کے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے سے اتنا بڑا انسان بن سکتا ہے، ایک چھوٹے سے بیج سے اتنا بڑا درخت وجود میں آ سکتا ہے، تو ان واقعات پر کیا تعجب ہے؟ وقت، جگہ اور حد ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند و بالا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 76   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 78  
´وضو کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام نے وضو کا پانی تلاش کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ (تو ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یہ فرماتے ہوئے پانی میں ڈالا: بسم اللہ کر کے وضو کرو میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا تھا، حتیٰ کہ ان میں سے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے؟ تو انہوں نے کہا: ستر کے قریب ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 78]
78۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، البتہ اختلاف اس مسئلے میں یہ ہے کہ کیا بسم اللہ پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور اہل علم کے نزدیک وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے کیونکہ وہ مذکورہ حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو سنت اور مشروعیت پر محمول کرتے ہیں جبکہ امام حسن، اسحاق بن راہویہ اور اہل ظاہر کا موقف یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو نہیں ہو گا، اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ دیکھیے: [صحیح الترغیب: 201/1]
کیونکہ وہ اس حدیث: «لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ عليه» جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو ہی نہیں۔ [جامع الترمذی، الطھارة، حدیث: 25]
کو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو وجوب پر محمول کرتے ہیں۔ امام اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر کوئی وضو میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا کسی تاویل کی بنا پر وضو سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو ہو جائے گا۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25]
بہرحال دلائل کی رو سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے جیسا کہ امام اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سبل السلام: 86/1، وإرواء الغلیل: 122/1]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 78   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.