الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
14. باب في وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
14. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
حدیث نمبر: 83
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا فليح بن سليمان، عن عبد الرحمن، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: اوذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة في مرضه، فقال: "مروا ابا بكر يصلي بالناس"، ثم اغمي عليه، فلما سري عنه، قال:"هل امرتن ابا بكر يصلي بالناس؟"، فقلت: إن ابا بكر رجل رقيق، فلو امرت عمر، فقال:"انتن صواحب يوسف مروا ابا بكر يصلي بالناس، فرب قائل متمن ويابى الله والمؤمنون".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُوذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:"هَلْ أَمَرْتُنَّ أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ؟"، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ:"أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَرُبَّ قَائِلٍ مُتَمَنٍّ وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے مرض الموت میں نماز کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی، پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ازواج مطہرات سے) فرمایا: کیا تم نے ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لئے کہا؟ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں نے عرض کیا: ابوبکر نرم دل کے ہیں کاش آپ عمر کو (امامت کا) حکم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صواحب یوسف کی طرح ہو، ابوبکر سے کہو لوگوں کی امامت کرائیں، ورنہ کئی لوگ اس کے خواہش مند ہوں گے اور باتیں کریں گے لیکن اللہ تعالی اور مومن (اس سے) انکار کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل فليح بن سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 83]»
اس حدیث کی سند حسن ہے لیکن اصل صحیح ہے جو صحیح بخاری میں سوائے آخری کلے کے اسی سیاق و سباق کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 679، 683]، [ترمذي 3672]، ابویعلی نے بھی امام دارمی کے مثل روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلى 4478]

وضاحت:
(تشریح حدیث 82)
اس روایت سے معلوم ہوا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامت کے لئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو متعین کرنا، ان کے افضل الأمۃ اور خلیفۂ اوّل ہونے کی دلیل ہے۔
بیوی کی بات نامناسب ہو تو رد کر دینی چاہیے، اور یہ کہ فطرت میں سب عورتیں ایک جیسی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کہ حالتِ نزع میں بھی ہوش و حواس قائم اور صحیح فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔
والله اعلم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل فليح بن سليمان


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.