((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دخلت امراة النار من جراء هرة لها او هرة ربطتها، فلا هي اطعمتها ولا هي ارسلتها تتقمم من خشاش الارض، حتى ماتت هزلا"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ مِنْ جَرَّاءِ هِرَّةٍ لَهَا أَوْ هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَتَقَمَّمُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ هَزْلا"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت اپنی بلی کو باندھنے کے جرم کے سبب داخل جہنم ہوئی، نہ تو اس نے اسے کچھ کھلایا اور نہ اسے آزاد چھوڑا کہ حشرات الارض کھا لیتی حتیٰ کہ وہ لاغر ہو کر مر گئی۔“
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “एक औरत अपनी बिल्ली को बांधने के अपराध के कारण जहन्नम में गई, न तो उस ने उसे कुछ खिलाया और न उसे आज़ाद छोड़ा कि कीड़े मकोड़े खा लेती यहां तक कि वह कमज़ोर हो कर मर गई।”
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الشرب (والمساقاة)، باب سقي الماء، رقم: 2365، وكتاب بدء الخلق، رقم: 3318، وكتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3482، عن ابن عمر - صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآدب، باب تحريم تعذيب الهرة ونحوها من الحيوان الذى لا يؤذي، رقم: 2619/135، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال:.... - مسند أحمد: 85/16، رقم: 92/8186 - مصنف عبدالرزاق، كتاب الجامع، باب الرخص و الشدائد: 283/11، 285 - سنن الكبرىٰ، كتاب النفقات، باب نفقة الدواب: 14/8.»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4256
´توبہ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت اس بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جس کو اس نے باندھ رکھا تھا، وہ نہ اس کو کھانا دیتی تھی، اور نہ چھوڑتی ہی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے یہاں تک کہ وہ مر گئی۔“ زہری کہتے ہیں: (ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ) کوئی آدمی نہ اپنے عمل پر بھروسہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4256]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان کو اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اللہ کے عذاب سے خوف بھی رکھنا چاہیے۔
(2) محدثین کی فقاہت صرف اختلافی فروعی مسائل تک محدود نہ تھی بلکہ ایمان، اخلاق اور عملی زندگی کے مختلف پہلووں پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔
(3) اپنی لاش جلانے اور راکھ اڑانے کی وصیت کرنے کی وجہ موت کے وقت خشیت کی کیفیت کا غلبہ تھا۔ اس لئے اس کی یہ غلطی بھی معاف ہوگئی۔ کہ اس نے نامناسب وصیت کی۔
(4) اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کیے بغیر روح سے بھی سوال کرسکتا تھا لیکن اس کو اللہ نے اپنی قدرت او ر سطوت کا مشاہدہ کروادیا۔
(5) قبر کےعذاب اور نعمت سے مراد وہ تمام حالات ہیں جو موت کے بعد قیامت تک پیش آیئں گے۔ یہ حالات ہر شخص کو پیش آتے ہیں۔ خواہ اسے دفن کیاجائے یا اسے جنگلی جانور یا مچھلیاں کھا جایئں یا اس کو خاک سیاہ کرکے اس کے ذرے بکھیر دیئے جایئں یا اس کی راکھ کو کسی برتن میں محفوظ کرلیا جائے۔ یا اس کی لاش محفوظ ہو۔ جسے لوگ دیکھ رہے ہوں۔
(6) عذاب قبر کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ اس لئے زندہ انسان اسکے ادراک کی طاقت نہیں رکھتے۔
(7) کسی بھی جاندار چیز پر ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خاص طور پر ایسا ظلم جس سے جاندار ایک ہی مرتبہ مرجانے کے بجائے تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کرمرے۔
(8) پالتو جانوروں کی ضروریات کا خیال رکھنا فرض ہے۔ بلکہ ایسے جانور جوکسی کے پالتو نہیں ان پر رحم کرنے سے بھی اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے گناہ گارانسان کی مغفرت ہوگئی تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4256