الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
فیصلہ کرنے کرانے کے مسائل
حدیث نمبر: 893
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا عبد الرزاق، نا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إذا اكره الرجلان على اليمين فاستحباها اسهم بينهما)).أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا أُكْرِهَ الرَّجُلَانَ عَلَى الْيَمِينِ فَاسْتَحَبَّاهَا أُسْهِمَ بَيْنَهُمَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی اٹھانے پر مجبور کر دیئے جائیں تو پھر ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنا پسندیدہ امر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الاقضية، باب الرجلين يدعيان الخ، رقم: 3617. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 317/2.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 893  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی قسم اٹھانے پر مجبور کر دیئے جائیں تو پھر ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنا پسندیدہ امر ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:893]
فوائد:
شریعت کا یہ قانون ہے کہ جب جھگڑا ہو تو مدعی گواہ پیش کرے، اگر وہ گواہ پیش نہ کرے تو مدعیٰ علیہ قسم کھائے جیسا کہ حدیث میں ہے ((اَلْبَیِّنَةُ عَلَی الْمُدَّعِیَ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنَکَرَ۔)).... مدعی پر ثبوت (یعنی گواہ وغیرہ) پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا۔ (بیهقي: 8؍ 123۔ ارواء الغلیل، رقم: 1938 اسناده صحیح)
لیکن جب صورت حال یہ ہو کہ دونوں فریق مدعی بھی ہوں اور مدعا علیہ بھی ہوں، تو ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر دونوں ہی قسم کھانے کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کرائی جائے گی جس کے نام قرعہ نکلے گا وہی قسم کھا کر اس چیز کا مستحق قرار پائے گا۔ (طرح التثریب: 8؍ 87)
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اکراہ سے مراد حقیقی اکراہ نہیں ہے، اس لیے کہ کسی انسان کو قسم اٹھوانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب قسم کو ان پر پیش کیا جائے اور وہ دونوں قسم اٹھانے کو تیار ہو جائیں، اگرچہ وہ قلبی طور پر اسے مکروہ سمجھیں۔ یہ استحباب کے معنی ہیں۔ ایسی صورت میں وہ دونوں قسم اٹھانے کو دل سے اچھا سمجھ رہے ہوں اور اب ان میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ پہلے قسم کون اٹھائے گا تو اس قسم کو اٹھانے کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہی مراد ہے۔ (فتح الباري: 5؍ 352۔ معالم السنن: 4؍ 39)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 893   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.