الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
71. بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ لِلْمُسَافِرِ وَالْمُقِيمِ
71. باب: مسافر اور مقیم کے مسح کی مدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 96
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، عن صفوان بن عسال، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يامرنا إذا كنا سفرا ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روى الحكم بن عتيبة , وحماد، عن إبراهيم النخعي، عن ابي عبد الله الجدلي، عن خزيمة بن ثابت، ولا يصح. قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد: قال شعبة: لم يسمع إبراهيم النخعي من ابي عبد الله الجدلي حديث المسح. وقال زائدة: عن منصور كنا في حجرة إبراهيم التيمي ومعنا إبراهيم النخعي، فحدثنا إبراهيم التيمي، عن عمرو بن ميمون، عن ابي عبد الله الجدلي، عن خزيمة بن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسح على الخفين. قال محمد بن إسماعيل: احسن شيء في هذا الباب حديث صفوان بن عسال المرادي. قال ابو عيسى: وهو قول اكثر العلماء من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم من الفقهاء، مثل سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: يمسح المقيم يوما وليلة، والمسافر ثلاثة ايام ولياليهن. قال ابو عيسى: وقد روي عن بعض اهل العلم، انهم لم يوقتوا في المسح على الخفين، وهو قول مالك بن انس. قال ابو عيسى: والتوقيت اصح، وقد روي هذا الحديث عن صفوان بن عسال ايضا، من غير حديث عاصم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ , وَحَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَلَا يَصِحُّ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ مِنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ حَدِيثَ الْمَسْحِ. وقَالَ زَائِدَةُ: عَنْ مَنْصُورٍ كُنَّا فِي حُجْرَةِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ وَمَعَنَا إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، فَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُمْ لَمْ يُوَقِّتُوا فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. قال أبو عيسى: وَالتَّوْقِيتُ أَصَحُّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَيْضًا، مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ عَاصِمٍ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے،
۳- اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثر اہل علم مثلاً: سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے، اور مسافر تین دن اور تین رات، بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ (جب تک دل چاہے کر سکتا ہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن تحدید والا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 98، 113، 114 (126)، و113 (158)، و114 (159)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 63 (478)، ویأتي برقم: 3535 (تحفة الأشراف: 4952)، مسند احمد (4/239، 240) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے: مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہو گی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے، نیز مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (478)

   سنن النسائى الصغرى126صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن
   سنن النسائى الصغرى127صفوان بن عسالنمسح على خفافنا ولا ننزعها ثلاثة أيام من غائط وبول ونوم إلا من جنابة
   سنن النسائى الصغرى158صفوان بن عساللا ننزعه ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   سنن النسائى الصغرى159صفوان بن عساللا ننزعه ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي3535صفوان بن عسالثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة لكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي96صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي3536صفوان بن عساللا نخلع خفافنا ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   سنن ابن ماجه478صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام إلا من جنابة لكن من غائط وبول ونوم
   المعجم الصغير للطبراني99صفوان بن عسالثلاثة أيام للمسافر ولا ينزع من غائط ولا بول ولا نوم يوما للمقيم
   المعجم الصغير للطبراني103صفوان بن عسالمسح على الخفين ثلاثة أيام ولياليهن المقيم يوم وليلة
   بلوغ المرام56صفوان بن عسالان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة،‏‏‏‏ ولكن من غائط وبول ونوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 56  
´مدت مسح کا آغاز و اختتام`
«. . . وعن صفوان بن عسال رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يامرنا إذا كنا سفرا ؛ ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة،‏‏‏‏ ولكن من غائط وبول ونوم . . .»
. . . سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں، الایہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے۔ البتہ بیت الخلاء جانے کی صورت میں، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 56]

لغوی تشریح:
«سَفْرًا» سین کے فتحہ اور فا کے سکون کے ساتھ ہے۔ «مُسَافِرِين» کے معنی میں ہے، «سَافِرٌ» کی جمع ہے جیسے «رَكْبٌ» اور «تَجْرٌ»، «رَاكِبٌ» اور «تَاجِرٌ» کی جمع ہیں۔
«خِفَافٌ» «خُفٌّ» کی جمع ہے۔
«إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ» یہ «أَنْ لَّا نَنْزِعَ» کی نفی سے استثنا ہے۔ جنابت کی حالت لاحق ہونے کی صورت میں موزے اتارنے ضروری ہیں، خواہ ابھی تین دن اور تین راتیں مدت پوری نہ ہوئی ہو، البتہ بول و براز اور نیند کی وجہ سے موزے اتارنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، تین دن اور تین راتیں مدت پوری ہونے پر اتارنا پڑیں گے۔

فوائد و مسائل:
➊ موزوں پر مسح بلا اختلاف جائز ہے۔
➋ موزوں پر مسح کی روایات بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد اسّی (80) کے لگ بھگ ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
➌ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔
➍ امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح خفین کی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ انکار کرنے والے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔
➎ مقیم اور مسافر کی مدت مختلف ہے۔ مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن رات شرعی حد ہے۔ مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد وضو کرتے وقت پہلے مسح سے شروع ہو گا، موزے پہننے کے وقت سے نہیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہنتا ہے اور اس کا وضو شام کو جا کر ٹوٹتا ہے تو اس کے لیے آغاز مدت وضو کرتے وقت پہلے مسح سے ہو گا نہ کہ وضو ٹوٹنے کے وقت سے۔
➏ مسح کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے تر کر کے ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے آغاز تک کھینچ لیا جائے۔
➐ حدث لاحق ہونے (بےوضو ہونے) کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے اور اختتام مدت کے بعد بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بعینہ یہ سارے احکام جرابوں پر مسح کے بھی ہیں۔ اور ہر قسم کی جراب، خواہ موٹی ہو یا باریک، اس پر مسح جائز ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ ER صفوان صاد کے فتحہ اور فا کے سکون کے ساتھ ہے۔ «عَسَّال» عین کے فتحہ اور سین کی تشدید کے ساتھ ہے۔ صفوان بن عسال مرادی جملی، مشہور ومعروف صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑے جانے والے 12 غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے روایت کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 127  
´مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کے وقت کی تحدید کا بیان۔`
زر کہتے ہیں کہ میں نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: جب ہم مسافر ہوتے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے کہ ہم اپنے موزوں پر مسح کریں، اور اسے تین دن تک پیشاب، پاخانہ اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں سوائے جنابت کے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 127]
127۔ اردو حاشیہ:
➊ موزوں پر مسح حضر اور سفر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔ بعض لوگ اسے سفر کے ساتھ خاص کرتے ہیں لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر و حضر دونوں حالتوں میں مسح کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو [ذخيرة العقبي، شرح سنن النسائي: 95-86/3]
➋ چونکہ مسافر کو سفر میں کافی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے لیے مدت مسح زیادہ رکھی گئی۔ عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انہیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انہوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انہوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: 558]
بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [تيسير الفقه الجامع للاختيارات الفقهية: 159/1، والصحيحة للألباني: 239/6]
➍ مدت مسح وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شمار ہو گی جیسے کہ مسح کی احادیث کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔
➎ مسح وضو میں ہو گا نہ کہ غسل میں۔ اگر غسل فرض ہو جائے تو موزے اتارنے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 127   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 158  
´پاخانہ اور پیشاب سے وضو کا بیان۔`
زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس آیا جسے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، میں ان کے دروازہ پر بیٹھ گیا، تو وہ نکلے، تو انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: طالب علم کے لیے فرشتے اس چیز سے خوش ہو کر جسے وہ حاصل کر رہا ہو اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، پھر پوچھا: کس چیز کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: دونوں موزوں کے متعلق کہا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم انہیں تین دن تک نہ اتاریں، الاّ یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے، لیکن پاخانہ، پیشاب اور نیند (تو ان کی وجہ سے نہ اتاریں)۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 158]
158۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔
➋ بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿واخفض لھما جناح الذل من الرحمة﴾ [بنی اسرآءیل 24: 17]
اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔ واللہ أعلم۔
➌ اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔
➍ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 158   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث478  
´جاگنے کے بعد وضو کرنے کا بیان۔`
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اپنے موزوں کو تین دنوں تک جنابت کے سوا پاخانے، پیشاب اور نیند کے سبب نہ اتاریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 478]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح پیشاب یا پاخانے کے بعد وضو کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نیند کے بعد بھی وضو کی ضرورت ہوتی ہے۔

(2)
وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہیں لیکن اگر موزے پہنے ہوئے ہوں توان پر مسح کرلینا کافی ہے بشرطیکہ پہننے سے پہلے پورا وضو کیا ہو، اور اس میں پاؤں بھی دھوئے ہوئے ہوں۔ ((صحيح مسلم، الطهارة، باب المسح علي الخفين، حديث: 272)

(3)
تین دن کی یہ مدت مسافر کے لیے ہے۔
مقیم صرف ایک دن رات تک مسح کرسکتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے (موزوں پر مسح کے لیے)
مسافر کے لیے تین دن رات کی مدت مقرر فرمائی ہے اور مقیم کے لیے ایک دن رات کی۔ (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، حدیث: 276)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 478   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 96  
´مسافر اور مقیم کے مسح کی مدت کا بیان۔`
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 96]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدّت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے:
مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات،
یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہوگی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے،
حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے،
نیز مدّت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 96   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.