الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
15. بَابُ مَنْ أَخَذَ حَقَّهُ أَوِ اقْتَصَّ دُونَ السُّلْطَانِ:
15. باب: جس نے اپنا حق یا قصاص سلطان کی اجازت کے بغیر لے لیا۔
(15) Chapter. Whoever took his right or retaliation from somebody without submitting the case to the ruler.
حدیث نمبر: 6887
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، ان الاعرج حدثه، انه سمع ابا هريرة، يقول: إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" نحن الآخرون السابقون يوم القيامة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آخری امت ہیں لیکن (قیامت کے دن) سب سے آگے رہنے والے ہیں۔

Narrated Abu Huraira: That he heard Allah's Apostle saying, "We (Muslims) are the last (to come) but (will be) the foremost (on the Day of Resurrection)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 26


   صحيح البخاري896عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري2956عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري6624عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري7495عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري6887عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري7037عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون بينا أنا نائم إذ أوتيت خزائن الأرض فوضع في يدي سواران من ذهب فكبرا علي وأهماني فأوحي إلي أن انفخهما فنفختهما فطارا فأولتهما الكذابين اللذين أنا بينهما صاحب صنعاء وصاحب اليمامة
   صحيح البخاري238عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري3486عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح البخاري876عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح مسلم1981عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيح مسلم1980عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون الأولون
   صحيح مسلم1978عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون ونحن السابقون
   سنن النسائى الصغرى1368عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   صحيفة همام بن منبه1عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون السابقون
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم209عبد الرحمن بن صخرنحن الآخرون الاولون السابقون يوم القيامة، بيد انهم اوتوا الكتاب من قبلنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 1  
´امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت`
«. . . عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ لَهُ , فَهُمْ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ فَالْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ .»
سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی، اور ہمیں ان کے بعد۔ پس یہی (جمعہ) ان کا بھی دن تھا جو ان پر فرض کیا گیا۔ (لیکن) ان لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا، اس لیے وہ (اس میں) ہمارے تابع ہو گئے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے، اور نصاریٰ تیسرے دن۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق: 1]
شرح الحدیث:
ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے:
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: «آخِرُونَ» سے مراد زمانہ کے اعتبار سے ہے یعنی ہم آخری امت درجہ میں سب سے پہلے ہیں۔ یہ شرف اس امت کو حاصل ہے کہ وجود کے اعتبار سے یہ امت اگرچہ سب امتوں سے آخر میں آئی ہے، لیکن آخرت میں بقیہ امتوں سے سبقت لے جانے والی ہے، کہ ان کا حشر سب سے پہلے ہو گا، حساب بھی اس امت کا سب سے پہلے ہو گا، سب سے پہلے فیصلہ ان کے بارے میں سنایا جائے گا۔ بقیہ امتوں کی نسبت یہ امت سب سے پہلے جنت میں جائے گی، اس بات کی دلیل سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نحن الآخرون من اهل الدنيا، والاولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق» [صحيح مسلم، كتاب الجمعه، رقم: 856/22]
ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے آخر میں ہیں، اور قیامت کے دن درجہ میں سب سے پہلے ہوں گے، سب مخلوقات سے پہلے ہمارے متعلق فیصلہ سنایا جائے گا۔

آگے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اطاعت و قبول میں سبقت لے جانا۔ یعنی ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں سبقت لے جانے والے ہیں، جب کہ اس نعمت عظمی سے اہل کتاب محروم تھے، ان کا قول قرآن مجید میں مذکور ہے:
«يَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا» [النساء: 46]
وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔

فرماتے ہیں ایک اور بھی قول ہے کہ «يوم سابق» یعنی جمعہ کے دن کی حفاظت کرنا مراد ہے۔ اور پہلا قول زیادہ مضبوط ہے۔ [شرح سنن النسائي: 86,8/1]
ہمارے نزدیک معنوی طور پر تینوں قول ہی درست ہیں، ان میں آپس میں منافات نہیں ہے۔

پس یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا:
اس دن سے مراد جمعہ کا دن ہے کہ جمعہ کا دن پہلے یہودیوں کو دیا گیا۔
ابن ابی حاتم نے سدی کے طریق سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: «إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ» [النحل: 124]
یقیناً ہفتہ کا دن ان لوگوں کے لیے خاص کیا گیا، جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کر ڈالا۔ کی تفسیر کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر جعہ کا دن فرض کیا (کہ کام کاج سے چھٹی کے دن وہ اللہ کی عبادت کریں) تو یہود موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے، اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن میں کچھ بھی پیدا نہیں فرمایا، لہٰذا آپ ہمارے لیے یہ دن (عبادت کا) مقرر کر دیں، پھر ان کے لیے ہفتہ کا دن مقرر کر دیا گیا۔ [تفسير ابن ابي حاتم: 2307/7 - الدر المنثور: 5/ 174-175]

امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہاں سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاری پر جمعہ کے دن کی تعظیم فرض تھی، تو ان لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا، یہودیوں نے کہا کہ تعظیم والا دن ہفتہ ہے، اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ (آسمان و زمین کی) تخلیق سے فارغ ہوا تھا، تو اس وجہ سے ہم اس (ہفتہ کے) دن آرام کریں گے، کام کاج نہیں کریں گے، بلکہ اللہ کی عبادت اور اس کا شکر ادا کریں گے۔ اور نصاری نے کہا کہ وہ اتوار کا دن ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دن خلقت کی پیدائش کی ابتداء کی تھی، لہذا یہ دن تعظیم کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اس دن کا مسلمانوں کو بتلا دیا اور وہ ہفتہ اور اتوار سے پہلے ہے۔ [شرح السنة 202/4]

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: اس حدیث میں جمعہ کی فرضیت، اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت کی دلیل موجود ہے۔ [شرح مسلم للنووي: 507/2]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 209  
´جمعہ کے دن کی فضیلت`
«. . . 373- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نحن الآخرون الأولون السابقون يوم القيامة، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا وأوتيناه من بعدهم، فهذا يومهم الذى فرض عليهم فاختلفوا فيه فهدانا الله له، فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدا والنصارى بعد غد. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہوں گے باوجود اس کے کہ انہیں (یہود و نصاریٰ کو) ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہمیں ان کے بعد ملی۔ پس یہ دن ان پر فرض کے آ گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا، پھر اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت دی، لہٰذا سب لوگ ہمارے بعد ہیں۔ یہودیوں کا دن کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 209]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابن خزيمه 3/109، 110 ح1720، من حديث مالك به، ورواه البخاري 876، ومسلم 855، من حديث ابي الزناد به]

تفقه:
➊ تمام قوموں پر مسلمانوں کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے تمام انبیاء و رسولوں کو مانا اور ان پر ایمان لائے جبکہ یہود و نصاریٰ نے بعض نبیوں کو مانا اور بعض کا انکار کردیا۔
➋ عقیدہ اگر صحیح ہو تو تھوڑے عمل پر بھی بہت اجر ملتا ہے۔
➌ بعض لوگ اس حدیث سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عصر کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن ان لوگوں کا یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔ دیکھئے: میری کتاب ہدیۃ المسلمین حدیث نمبر7
تکمیلِ فائدہ کے لئے اس تحقیق کی نقل پیشِ خدمت ہے:
◄ ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہودیوں نے دوپہر (نصف النہار) تک عمل کیا، عیسائیوں نے دوپہر سے عصر تک عمل کیا اور مسلمانوں نے عصر سے مغرب تک عمل کیا تو مسلمانوں کو دوہرا اجر ملا دیکھئے: (صحیح بخاری:557)
بعض لوگ اس سے استدلال کرکے عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کا دوہرا اجر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرنے والے) تمام یہود و نصاریٰ کے مجموعی مقابلے میں ہے۔ یاد رہے کہ حضرو کے دیوبندی دائمی نقشۂ اوقاتِ نماز کے مطابق دو سب سے برے اور سب سے چھوٹے دنوں کی تفصیل (حضرو کے وقت کے مطابق) درج ذیل ہے:
(22 جون) دوپہر 12:11 مثل اول: 3:56 (فرق: 3:45) غروب آفتاب: 7:24 (فرق: 3:28)
(22 دسمبر) دوپہر 12:08 مثل اول: 2:47 (فرق: 2:39) غروب آفتاب: 5:05 (فرق: 2:18)
◄ اس حسب سے بھی عصر کا وقت ظہر کے وقت سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس حدیث سے بعض الناس کا استدلال مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 373   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2956  
´امام (بادشاہ اسلام) کے ساتھ ہو کر لڑنا اور اس کے زیر سایہ اپنا (دشمن کے حملوں سے) بچاؤ کرنا`
«. . . أَنَّ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ . . .»
. . . اعرج نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہم لوگ گو دنیا میں سب سے پیچھے آئے لیکن (آخرت میں) جنت میں سب سے آگے ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2956]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2956 کا باب: «بَابُ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَيُتَّقَى بِهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت انتہائی مشکل نظر آتی ہے کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ امام کے ساتھ ہو کر لڑنا اور حدیث پیش فرمائی کہ ہم لوگ دنیا میں سب سے پیچھے آئے ہیں مگر جنت میں سب سے آگے ہوں گے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ بڑے ہی دقیق انداز میں استنباط فرما رہے ہیں، مذکورہ بالا حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجمعہ میں بھی نقل فرمایا ہے۔
«نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ، فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللّٰهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ.» [صحيح البخاري، كتاب الجمعة، رقم الحديث: 876]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں آگے رہیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے قبل دی گئی تھی۔ یہی (جمعہ) ان کا دن تھا جو ان پر فرض ہوا ہے لیکن وہ اس میں اختلاف کر گئے اور اللہ تعالی نے ہمیں یہ دن بتایا اس لئے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے، یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاری تیسرے دن۔
مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں: «فاختلفوا فيه» یعنی وہ اختلاف کر گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں امام بادشاہ کے ساتھ مل کر یعنی اس کی اطاعت کرتے ہوئے لڑنے کے حکم کو واضح فرمایا، لازما جب امام کے ساتھ مل کر لڑا جائے گا تو اس کی تابعداری ضروری ہے، اسی لئے اگلی حدیث میں واضح الفاظ ہیں: «وانما الامام جنة يقاتل من ورائه» امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں جنگ کی جائے۔ یعنی امام کی تابعداری کرنا لازم ہو گا۔
اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ اہل کتاب نے اختلاف کیا اور امت محمدیہ کو امام بادشاہ کے ساتھ اختلاف نہیں کرنا بلکہ تابعداری کے ساتھ جہاد کرنا ہو گا، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سرداران قبائل عرب امارت کے نظام سے ناواقف تھے، وہ اپنے قبیلوں کے سرداروں کے علاوہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے، پھر جب اسلام کے آنے کے بعد ان پر امراء مقرر کئے جانے لگے تو وہ اس سے دل برداشتہ ہو گئے اور بعض نے امراء کی اتباع اور ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ ان امراء کی اطاعت میں میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے، مقصد یہ تھا کہ عرب قبائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور بغاوت و سرکشی نہ کریں۔ [أعلام الحديث للخطابي، ج 2، ص: 122]
فائدہ:
اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ حاکم وقت یا امیر کی اتباع اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ شریعت کے مطابق فیصلہ کریں، اگر وہ اصول دین، شریعت کی واضح مخالفت کریں، یا وہ کافروں کی مدد کے لئے اور ان سے رشتہ کو مضبوط کرنے کے لئے اگر مسلمانوں کی مخالفت کریں، یا اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں تو ان حالات میں ان کی اطاعت کرنا حرام بلکہ کفر ہے۔ صحیح البخاری کی اس حدیث کی طرف اہل علم ضرور نظر ڈالیں، امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الجہاد میں فرماتے ہیں:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اور زبیر اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہم کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکلو حتی کہ جب تم لوگ روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا، تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ دیا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال دیا۔ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے، اس خط کا مضمون یہ تھا: حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی (وہ یہ تھا کہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جرار لشکر لئے ہوئے تمہارے سر پر آئے ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے آئیں تو بھی اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا، اب تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا، ان سے میرا کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری موجود ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے رشتہ داروں اور مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے، مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبتی تعلق نہیں ہے، اس لئے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کفر اور ارتداد کی وجہ سے ہرگز ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: حاطب نے سچ کہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اجازت دے دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ بدر کی لڑائی میں شامل تھے (مسلمانوں کے ساتھ) اور تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالی مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود ہی فرما چکا ہے: تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔ [صحيح بخاري، كتاب الجهاد، رقم: 3007]
مذکورہ واقعہ کی طرف غور کیجئے، اگر سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بدری نہ ہوتے تو وہ یقینا قتل کر دیئے جاتے کیوں کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کافروں کی مدد ارتداد اور کفر ہے، جبکہ حدیث کے متن پر غور فرمائیں خود سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں نے ارتداد اور کفر کی نیت سے نہیں خط لکھا . . .۔ چونکہ وہ بدری صحابی تھے اسی لئے ان کے اس جرم کو معاف کر دیا گیا تھا۔
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بدر میں حاضر ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہوں نے ایسا کام نہیں کیا جو ان کے قتل کو جائز کرتا ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل نہ کرنے کی علت اور وجہ یہ بتائی کہ وہ بدری ہیں اور اہل بدر کو اللہ تعالی نے معاف کیا ہوا ہے۔ پس سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے حق میں اس مانع کا پایا جانا محال اور ناممکن ہے۔ [جامع العلوم و الحكم، ص: 325]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگنے کے واقعے سے جاسوس کو قتل کرنے کی مشروعیت پر دلیل اخذ کی گئی ہے۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے ساتھ موافقت کرنے والے علماء کا قول ہے۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ارادہ قتل کو برقرار رکھا اگر مانع نہ ہوتا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل میں موجود مانع کو بیان کر دیا یعنی سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا بدری ہونا، اور یہ خصوصیت سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے لئے محال اور ناممکن ہے۔ [فتح الباري، ج 8، ص: 810]
قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول: مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دے دیجئے، اس میں دلیل ہے کہ مسلمان جاسوس کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات سے انکار نہیں کیا لیکن ان کے عذر کو اس لئے قبول فرمایا کہ وہ بدر میں شریک ہوئے تھے، اور بدری صحابہ کے گناہوں کو اللہ تعالی نے معاف کر دیا ہے۔ [اكمال المعلم شرح صحيح مسلم، ج 7، ص: 538]
ان وضاحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص دین اسلام کی بنیادوں کو ڈھانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرتا ہے تو اس کی اتباع نہیں ہو گی بلکہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والا بالاتفاق کافر و مرتد ہے۔
لہذا حاکموں اور امیروں کی اتباع معروف طریقے سے کی جائے گی، غیر معروف طریقے سے ہرگز نہیں، مکمل شریعت کو لے لیں تمام کتاب و سنت کے احکامات اس مسئلے پر وارد ہیں کہ حاکموں اور امیروں کی اتباع خلاف شریعت ہرگز نہیں ہو گی، خصوصا جب کہ یہ لوگ اسلام کو مٹانے اور کفر کے بڑھانے کے درپے ہوں۔
دو نصیحت آموز واقعات:
امام مسلم رحمہ اللہ صحیح میں فرماتے ہیں:
«عن على رضي الله عنه أن رسول صلى الله عليه وسلم بعث جيشا.»
«و أمر عليهم رجلا، فأوقد نارا، وقال: ادخلوها، فأراد الناس أن يدخلوها وقال الآخرون: أنا قد فررنا منها، فذكر ذالك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال للذين أرادوا أن يدخلوها: لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة، وقال للآخرين قولا حسنا وقال: لا طاعة فى معصية الله إنما الطاعة فى المعروف.» [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم الحديث 184]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس میں ایک امیر کو مقرر فرمایا (پھر اس نے آگ جلانے کا حکم دیا)، جب آگ بھڑک گئی تو اس نے لوگوں سے کہا کہ آگ میں کود جاؤ، بعض لوگ (اس کی اطاعت میں) آگ میں کود جانے کو تیار ہو گئے اور بعض نے کہا کہ ہم نے آگ سے بچنے کے لئے تو (اسلام قبول کیا ہے)، پھر اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو فرمایا جنہوں نے آگ میں کودنے کا ارادہ کیا تھا کہ اگر تم آگ میں کود جاتے تو ہمیشہ ہمیشہ آگ ہی میں رہتے، اور دوسرے لوگوں کیلئے اچھی بات کہی (جنہوں نے انکار کیا تھا) اور فرمایا: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، بات یہ ہے کہ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔
دوسرا واقعہ:
جب عمر بن ہبیرہ یزید بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا عامل مقرر ہوا تو اس نے بصرہ اور کوفہ کے فقہاء کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی، ان فقہاء میں امام شعبی رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ بھی تھے۔ عمر بن ہبیرہ نے کہا: امیر المومنین! یزید بن عبدالملک مجھے بعض غیر شرعی امور کا حکم دیتے ہیں، کیا میرے لئے ان کی تعمیل کرنا جائز ہے؟
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ تو مامور ہیں، آپ ویسے ہی کریں جیسے کہ آپ کو حکم دیا جاتا ہے، گناہ تو حکم دینے والے پر ہے۔ جب امام شعبی رحمہ اللہ اپنی بات مکمل کر چکے تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«إتق الله يا عمر! فكأنك بملك قد أتاك فاستنذلك فأخرجك من سعة قصرك إلى ضيق قبرك أن الله ينجيك من يزيد و أن يزيد لا ينجيك من الله، فإياك أن تعرض الله بالمعاصي، فإنه لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق.» [اعلام الحديث للخطابي، ج 2، ص: 1417]
اے عمر! اللہ سے ڈر! موت کا فرشتہ گویا کہ آ چکا ہے اور وہ تجھے تیرے محل کی وسعت سے اتار کر قبر کی تنگی تک پہنچا چکا ہے۔ یقینا اللہ تعالی تجھے یزید سے بچا سکتے ہیں مگر یزید تجھے اللہ تعالی سے نہیں بچا سکتا، خبردار گناہوں سے اللہ کا مقابلہ نہ کرو اس لئے کہ مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے خالق کی نافرمانی کرنا جائز نہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 421   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.