130. باب: کسی نے شام تک رمی نہ کی یا قربانی سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جان کر سر منڈوا لیا تو کیا حکم ہے؟
(130) Chapter. If one did the Ramy of the Jamra after Maghrib (evening) or has his head shaved before slaughtering the Hady because of forgetfulness or ignorance.
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يسال يوم النحر بمنى، فيقول: لا حرج، فساله رجل، فقال: حلقت قبل ان اذبح؟ قال: اذبح ولا حرج، وقال: رميت بعد ما امسيت؟ فقال: لا حرج".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ يَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى، فَيَقُولُ: لَا حَرَجَ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ: اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، وَقَالَ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ؟ فَقَالَ: لَا حَرَجَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم نحر میں منیٰ میں مسائل پوچھے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جاتے کہ کوئی حرج نہیں، ایک شخص نے پوچھا تھا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے تو آپ نے اس کے جواب میں بھی یہی فرمایا کہ جاؤ قربانی کر لو کوئی حرج نہیں اور اس نے یہ بھی پوچھا کہ میں نے کنکریاں شام ہونے کے بعد ہی مار لی ہیں، تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔
Narrated Ibn `Abbas: The Prophet was asked (as regards the ceremonies of Hajj) at Mina on the Day of Nahr and he replied that there was no harm. Then a man said to him, "I got my head shaved before slaughtering." He replied, "Slaughter (now) and there is no harm in it." (Another) man said, "I did the Rami (of the Jimar) after midday." The Prophet replied, "There was no harm in it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 791
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1983
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کوئی حرج نہیں“، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1983]
1983. اردو حاشیہ: یوم النحر(دسویں تاریخ) اعمال اگر اس ترتیب سے ہوں کہ پہلے رمی جمرہ پھرقربانی حجامت اور طواف افاضہ ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ورنہ آگے پیچھے بھی جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1983
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1735
1735. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے قربانی کے دن منیٰ کے میدان میں (تقدیم و تاخیر کے متعلق) دریافت کیا جاتا تو آپ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں۔“ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے قبل سر منڈوالیا ہے؟آپ نے فرمایا: ”اب ذبح کردو۔ کوئی حرج نہیں۔“ پھر اس نے کہا: میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1735]
حدیث حاشیہ: آپ ﷺ نے ان صورتوں میں نہ کوئی گناہ لازم کیا نہ فدیہ۔ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے اور شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے اور مالکیہ اور حنفیہ کا قول ہے کہ ان میں ترتیب واجب ہے اور اس کا خلاف کرنے والوں پر دم لازم ہوگا، ظاہر ہے کہ ان حضرات کا یہ قول حدیث ہذا کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل توجہ نہیں کیوں کہ ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1735
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1735
1735. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے قربانی کے دن منیٰ کے میدان میں (تقدیم و تاخیر کے متعلق) دریافت کیا جاتا تو آپ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں۔“ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے قبل سر منڈوالیا ہے؟آپ نے فرمایا: ”اب ذبح کردو۔ کوئی حرج نہیں۔“ پھر اس نے کہا: میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1735]
حدیث حاشیہ: (1) یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔ لوگ مکہ اور اس کے مضافات حجاز کے اطراف و اکناف سے آئے تھے اور احکام حج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ جب دسویں تاریخ کو مناسک حج ادا کرنے میں تقدیم و تاخیر ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لاعلمی اور بھول کی وجہ سے تقدیم و تاخیر میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اس سے کوئی فدیہ ہی لازم آتا ہے۔ (2) اس روایت میں بھول کر یا جہالت کی بنا پر کوئی کام کرنے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اسی روایت کے بعض طرق میں بھول اور جہالت کی صراحت ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے خود اس روایت کو بیان کیا ہے جس میں نسیان اور لاعلمی کا ذکر ہے۔ دیکھیے: (حدیث: 1736)(3) بعض حضرات کے نزدیک دسویں تاریخ کے مناسک میں ترتیب واجب ہے اور اس کے برعکس کرنے پر دم واجب ہو گا لیکن یہ موقف صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل التفات نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1735