Narrated Anas: The people of the tribes of Ril, Dhakwan, 'Usiya and Bani Lihyan came to the Prophet and claimed that they had embraced Islam, and they requested him to support them with some men to fight their own people. The Prophet supported them with seventy men from the Ansar whom we used to call Al-Qurra'(i.e. Scholars) who (out of piety) used to cut wood during the day and pray all the night. So, those people took the (seventy) men till they reached a place called Bi'r-Ma'ana where they betrayed and martyred them. So, the Prophet invoked evil on the tribe of Ril, Dhakwan and Bani Lihyan for one month in the prayer. Narrated Qatada: Anas told us that they (i.e. Muslims) used to recite a Quranic Verse concerning those martyrs which was:-- "O Allah! Let our people be informed on our behalf that we have met our Lord Who has got pleased with us and made us pleased." Then the Verse was cancelled.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 299
● صحيح البخاري | 7341 | أنس بن مالك | قنت شهرا يدعو على أحياء من بني سليم |
● صحيح البخاري | 2814 | أنس بن مالك | دعا رسول الله على الذين قتلوا أصحاب بئر معونة ثلاثين غداة على رعل ذكوان عصية عصت الله ورسوله |
● صحيح البخاري | 4096 | أنس بن مالك | قنت رسول الله بعد الركوع شهرا كان بعث ناسا يقال لهم القراء وهم سبعون رجلا إلى ناس من المشركين وبينهم وبين رسول الله عهد قبلهم فظهر هؤلاء الذين كان بينهم وبين رسول الله عهد فقنت رسول الله |
● صحيح البخاري | 4095 | أنس بن مالك | دعا النبي على الذين قتلوا يعني أصحابه ببئر معونة ثلاثين صباحا حين يدعو على رعل لحيان عصية عصت الله ورسوله أنزل الله لنبيه في الذين قتلوا أصحاب بئر معونة قرآنا قرأناه حتى نسخ بعد بلغ |
● صحيح البخاري | 4094 | أنس بن مالك | قنت النبي بعد الركوع شهرا يدعو على رعل ذكوان عصية عصت الله ورسوله |
● صحيح البخاري | 4091 | أنس بن مالك | دعا النبي عليهم ثلاثين صباحا على رعل ذكوان بني لحيان عصية الذين عصوا الله ورسوله |
● صحيح البخاري | 4090 | أنس بن مالك | قنت شهرا يدعو في الصبح على أحياء من أحياء العرب على رعل ذكوان عصية بني لحيان |
● صحيح البخاري | 4089 | أنس بن مالك | قنت رسول الله شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من العرب |
● صحيح البخاري | 2801 | أنس بن مالك | دعا عليهم أربعين صباحا على رعل ذكوان بني لحيان بني عصية الذين عصوا الله ورسوله |
● صحيح البخاري | 1003 | أنس بن مالك | قنت النبي شهرا يدعو على رعل ذكوان |
● صحيح البخاري | 1002 | أنس بن مالك | قنت رسول الله بعد الركوع شهرا كان بعث قوما يقال لهم القراء زهاء سبعين رجلا إلى قوم من المشركين دون أولئك وكان بينهم وبين رسول الله عهد فقنت رسول الله شهرا يدعو عليهم |
● صحيح البخاري | 1001 | أنس بن مالك | أوقنت قبل الركوع قال بعد الركوع يسيرا |
● صحيح البخاري | 4088 | أنس بن مالك | دعا النبي عليهم شهرا في صلاة الغداة وذلك بدء القنوت وما كنا نقنت |
● صحيح البخاري | 3064 | أنس بن مالك | قنت شهرا يدعو على رعل ذكوان بني لحيان |
● صحيح البخاري | 3170 | أنس بن مالك | قنت شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من بني سليم بعث أربعين من القراء إلى أناس من المشركين فعرض لهم هؤلاء فقتلوهم وكان بينهم وبين النبي عهد فما رأيته وجد على أحد ما وجد عليهم |
● صحيح البخاري | 1300 | أنس بن مالك | قنت رسول الله شهرا حين قتل القراء فما رأيت رسول الله حزن حزنا قط أشد منه |
● صحيح مسلم | 1547 | أنس بن مالك | قنت رسول الله شهرا بعد الركوع في صلاة الصبح يدعو على رعل ذكوان عصية عصت الله ورسوله |
● صحيح مسلم | 1545 | أنس بن مالك | أنزل الله في الذين قتلوا ببئر معونة قرآنا قرأناه حتى نسخ بعد أن بلغوا قومنا أن قد لقينا ربنا فرضي عنا ورضينا عنه |
● صحيح مسلم | 1548 | أنس بن مالك | قنت شهرا بعد الركوع في صلاة الفجر يدعو على بني عصية |
● صحيح مسلم | 1554 | أنس بن مالك | قنت شهرا يدعو على أحياء من أحياء العرب ثم تركه |
● صحيح مسلم | 1552 | أنس بن مالك | قنت شهرا يلعن رعلا ذكوان عصية عصوا الله ورسوله |
● صحيح مسلم | 1550 | أنس بن مالك | ما رأيت رسول الله وجد على سرية ما وجد على السبعين الذين أصيبوا يوم بئر معونة كانوا يدعون القراء فمكث شهرا يدعو على قتلتهم |
● صحيح مسلم | 1549 | أنس بن مالك | قنت رسول الله شهرا يدعو على أناس قتلوا أناسا من أصحابه يقال لهم القراء |
● سنن أبي داود | 1444 | أنس بن مالك | هل قنت رسول الله في صلاة الصبح فقال نعم بعد الركوع |
● سنن أبي داود | 1445 | أنس بن مالك | قنت شهرا ثم تركه |
● سنن النسائى الصغرى | 1080 | أنس بن مالك | قنت شهرا يدعو على حي من أحياء العرب ثم تركه |
● سنن النسائى الصغرى | 1078 | أنس بن مالك | قنت شهرا |
● سنن النسائى الصغرى | 1072 | أنس بن مالك | قنت رسول الله في صلاة الصبح قال نعم بعد الركوع |
● سنن النسائى الصغرى | 1071 | أنس بن مالك | يدعو على رعل ذكوان عصية عصت الله ورسوله |
● سنن ابن ماجه | 1184 | أنس بن مالك | قنت رسول الله بعد الركوع |
● سنن ابن ماجه | 1243 | أنس بن مالك | يقنت في صلاة الصبح يدعو على حي من أحياء العرب شهرا ثم ترك |
● بلوغ المرام | 241 | أنس بن مالك | قنت شهرا بعد الركوع يدعو على احياء من العرب ثم تركه |
● المعجم الصغير للطبراني | 580 | أنس بن مالك | صلى الغداة رفع يديه يدعو عليهم ، فلما كان بعد ذلك أتى أبو طلحة يقول : هل لك فى قاتل حرام ؟ ، فقال : ما باله ؟ فعل الله به وفعل قال أبو طلحة : لا تفعل ، فقد أسلم |
● مسندالحميدي | 1241 | أنس بن مالك | ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على سرية قط ما وجد على أصحاب بئر معونة حين قتلوا، وكانوا يسمون القراء |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1071
´رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ۱؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1071]
1071۔ اردو حاشیہ:
➊ ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کر کے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انہیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہو کر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہو گیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ» [آل عمران 128: 3] کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔
➌ کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1071
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1072
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ رکوع کے بعد ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1072]
1072۔ اردو حاشیہ: یہی وہ قنوت ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے صبح کی قنوت سمجھا ہے جب کہ جمہور اہل علم اسے عارضی قنوت نازلہ سمجھتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1072
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1080
´قنوت (قنوت نازلہ) چھوڑ دینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی، آپ عرب کے ایک قبیلے پر بد دعا کر رہے تھے، پھر آپ نے اسے ترک کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ: ایک نہیں بلکہ کئی قبیلوں کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ (دیکھیے، روایت: 1078)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1080
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1184
´رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1184]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہاں حدیث میں اختصار ہے۔
اصل میں یہ وہی حدیث ہے جس میں یہ درج ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ مسلسل پانچوں فرض نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1184
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 241
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قنت شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من العرب ثم تركه. متفق عليه. ولأحمد والدارقطني نحوه من وجه آخر وزاد: "وأما في الصبح فلم يزل يقنت حتى فارق الدنيا". . . .»
”. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، پھر اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم) احمد اور دارقطنی وغیرہ نے ایک اور طریق سے اسے روایت کیا ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ صبح کی نماز میں دعائے قنوت تا دم زیست ہمیشہ پڑھتے رہے۔ . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 241]
لغوی تشریح:
«قَنَتَ» قنوت سے ماخوذ ہے۔ اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہاں مراد ہے قیام کی حالت میں دوران نماز میں دعا کرنا۔ یہ دعا بعد از رکوع ہے۔
«عَليٰ أَحْيَاءٍ» «عَليٰ»، اس جگہ نقصان و ضرر کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جب کسی کے لیے بدعا کی جائے تو اس موقع پر «دَعَا عَلَيْهِ» بولا جاتا ہے، یعنی فلاں نے فلاں کے لیے بدعا کی۔ اور «أَحْيَاءٍ» جمع ہے «حَيّ» کی جس کے معنی قبیلہ کے ہیں۔ اور یہ قبائل (عہد شکن) رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحان تھے۔ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی، اس لیے کہ آپ نے ان کی درخواست پر پروردگار کے احکام پہنچانے اور تبلیغ اسلام کے لیے ان قبائل نجد کی طرف اپنے ستر قاری اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ جب یہ قافلہ مبلغین، بئر معونہ پر پہنچا۔۔۔ اور یہ کنواں یا چشمہ بنی عامر کے علاقہ اور حرہ بنی سلیم کے درمیان واقع تھا بلکہ یہ حرہ بنی سلیم کے زیادہ قریب تھا۔۔۔ تو بنوسلیم کے قبائل کے جھرمٹ میں سے عامر بن طفیل ان کی طرف نکلا۔۔۔ اور یہ قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ تھے۔ (جہاں یہ قراء حضرات ٹھہرے ہوئے تھے) وہیں ان قبائل کے لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان قاریوں نے بھی اپنی تلواریں نکال لیں اور مد مقابل دشمنوں سے خوب لڑے حتی کہ سب کے سب جام شہادت نوش کر گئے۔ صرف سیدنا کعب بن زید رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ کفار نے انہیں اس حالت میں چھوڑا تھا کہ زندگی کی رمق ابھی ان کے اندر باقی تھی مگر انہوں نے اپنے گمان کے مطابق انہیں مار دیا تھا۔ اللہ نے انہیں زندگی عطا کی اور بالآخر غزوہ خندق میں جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ المناک اور دردناک واقعہ غزوہ احد کے چار ماہ بعد 4 ہجری ماہ صفر میں پیش آیا۔ بنولحیان کے حق میں بددعا کی وجہ یہ تھی کہ عضل و قارہ کے قبائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے (عالم) آدمیوں کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں اسلام کی دعوت دے سکیں اور انہیں احکام شریعت کی تعلیم دے سکیں، چنانچہ آپ نے دس عظیم حضرات ان کی جانب بھیجے۔ جب یہ حضرات رجیع تک پہنچے۔۔۔۔۔۔ یہ جگہ رابغ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔ تو ان قبائل کے لوگوں نے ان دس آدمیوں کے ساتھ دھوکا کیا اور بنولحیان کو بھی اشارہ کیا (شہہ دی۔) یہ ہذیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا۔ یہ سب لوگ ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور ان کو گھیرے میں لے لیا، چنانچہ ان لوگوں نے دو صحابہ کرام سیدنا خبیب بن عدی اور سیدنا زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انہوں نے تہ تیغ کر دیا۔ اور یہ واقعہ بھی ماہ صفر میں پیش آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں المناک واقعات کی اطلاع ایک ہی شب میں ملی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی افسردہ اور غمگین ہوئے کہ پورا ایک مہینہ ان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ اور پھر بددعا کرنا ترک کر دیا۔ اس قسم کی دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کہا جاتا ہے۔ فرضی نماز میں اس کے علاوہ کوئی قنوت نہیں ہے۔ یہ دعائے قنوت بڑے بڑے المناک اور دردناک واقعات کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے، الا یہ کہ مسلمانوں کے لیے دعا فرمائیں یا کفار میں سے بدعہد، عہد شکن قسم کے لوگوں کے لیے بد دعا کریں۔ رہا نماز فجر میں مسند أحمد اور دارقطنی کے حوالے سے قنوت کے پڑھنے کا التزام و مواظبت کا اضافہ تو یہ قابل استدلال نہیں کیونکہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے، نیز قنوت نازلہ کسی نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسے تمام نمازوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ نماز فجر میں آپ سے دعائے قنوت نازلہ ثابت ہے۔ عہد شکنی اور بدعہدی کی بنا پر مقتول صحابہ کی وجہ سے مہینہ بھر آپ بددعا کرتے رہے۔ ظاہر ہے یہ فرض نماز ہی تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد دعا فرماتے رہے۔
➋ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام دین تبلیغ ہے۔ مبلغین کی جماعت تیار رہنی چاہئے۔ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں جماعتی شکل میں تبلیغ کے لیے جانا چاہیے۔
➌ نظم جماعت کی طرف بھی اس سے اشارہ ملتا ہے اور اطاعت امیر بھی اس سے ظاہر ہے۔
➍ ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی علم غیب نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو اپنے تیار مبلغین کو قتل کے لیے کیوں بھیجتے۔ نعوذ باللہ! جان بوجھ کر تو آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول نہیں ہوئی اس وقت تک آپ کو اپنے بھیجے ہوئے مبلغین کی صورت حال کی کچھ خبر نہیں تھی۔
➎ احناف اسی حدیث کی روشنی میں بوقت ضرورت قنوت نازلہ کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں اور اسے مسنون قرار دیتے ہیں۔
➏ قنوت نازلہ کا طریقہ یہ ہے کہ امام رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 241
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3064
3064. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپنی قوم کے خلاف آپ سے مدد طلب کی تو نبی ﷺ نے ستر انصار روانہ کیے جنھیں ہم قراء کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ دن کو لکڑیاں اکھٹی کرتے اور رات کو نوافل پڑھتے، چنانچہ وہ لوگ انھیں ساتھ لے کر چلے گئےحتی کہ جب بئرمعونہ پہنچے تو ان سے دھوکا کیا اور انھیں قتل کر دیا۔ اس واقعے کی اطلاع پانے کے بعد نبی ﷺ نے ایک ماہ تک دعائے قنوت پڑھی اور رعل، ذکوان اور بنو لحیان کے خلاف بددعا کرتے رہے۔ (راوی حدیث) قتادہ نے کہا کہ حضرت انس ؓ کے بیان کے مطابق صحابہ کرام ؓ ان کے متعلق یہ آیات پڑھتے رہے۔ ”کیوں نہیں!ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ وہ ہم سے راضی ہوگیا اور اس نے ہمیں بھی راضی کردیا۔“ اس کے بعد یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3064]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں کہ ان قاریوں کو عامر بن طفیل نے قتل کیا، اس نے بنو سلیم کے آدمی ان پر جمع کئے اور رعل اور ذکوان اور بنی لحیان نے عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا‘ حضرت خبیب ؓ کو بیچا‘ آنحضرتﷺ کو ہر دو کی اطلاع ہو گئی اس لئے آپ نے دونوں کے لئے بد دعا کی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3064
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3064
3064. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپنی قوم کے خلاف آپ سے مدد طلب کی تو نبی ﷺ نے ستر انصار روانہ کیے جنھیں ہم قراء کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ دن کو لکڑیاں اکھٹی کرتے اور رات کو نوافل پڑھتے، چنانچہ وہ لوگ انھیں ساتھ لے کر چلے گئےحتی کہ جب بئرمعونہ پہنچے تو ان سے دھوکا کیا اور انھیں قتل کر دیا۔ اس واقعے کی اطلاع پانے کے بعد نبی ﷺ نے ایک ماہ تک دعائے قنوت پڑھی اور رعل، ذکوان اور بنو لحیان کے خلاف بددعا کرتے رہے۔ (راوی حدیث) قتادہ نے کہا کہ حضرت انس ؓ کے بیان کے مطابق صحابہ کرام ؓ ان کے متعلق یہ آیات پڑھتے رہے۔ ”کیوں نہیں!ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ وہ ہم سے راضی ہوگیا اور اس نے ہمیں بھی راضی کردیا۔“ اس کے بعد یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3064]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒنے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ اگرمجاہدین کو میدان جنگ میں کسی وقت نفری کی ضرورت ہوتو ان کے طلب کرنے پر مزید کمک روانہ کی جاسکتی ہے۔
اسے میدان جنگ میں لڑنے والوں کی کم ہمتی یا بزدلی شمار نہیں کیا جائےگا۔
2۔
اس روایت میں بنو لحیان کا ذکر کسی راوی کا وہم ہے کیونکہ بنو لحیان کاتعلق بئر معونہ سے نہیں بلکہ اصحاب رجیع سے ہے۔
ان کی طرف دس افراد پر مشتمل ایک فوجی دستہ جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔
اس کے سربراہ عاصم بن ثابت انصاری ؓ تھے۔
بنولحیان نے انھیں سات ساتھیوں سمیت قتل کیا اور حضرت خبیب بن عدی ؓ کو اہل مکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔
رسول اللہ ﷺ کو دونوں واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے قنوت کی تھی۔
بہرحال یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔
(فتح الباري: 217/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3064