حدیث حاشیہ: 1۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ آیت کریمہ کی حدیث شریف سے تفسیر کرنا چاہتے ہیں، لیکن تفسیر کا مقام تو کتاب التفسیرہے، کتاب الحیض سے اس کا کیا تعلق ہے؟ تعلق بایں طور ہے کہ جب نطفہ رحم مادر میں جائے گا تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔
اس میں تخلیقی کیفیت پیدا کی جائے گی اور یہ اس وقت ممکن ہوتا جب رحم میں حیض کی صلاحیت ہو حیض کے بغیر نطفے میں تخلیقی تبدیلی لانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔
اس میں تخلیقی کیفیت پیدا نہ کی جائے، اس طرح کے نطفے کو رحم باہر پھینک دیتا ہے، اس طرح حدیث کا کتاب الحیض سے ربط تو ہو گیا، لیکن امام بخاری کا اس عنوان بندی سے کیا مقصد ہے؟ اس کے متعلق شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ایک اختلافی مسئلے کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حالت حمل میں عورت کو خون آجائے تو اس خون کو حیض قراردیا جائے گا، یا اسے استحاضہ شمار کریں گے؟ امام بخاری کے نزدیک ایام حمل میں آنے والا خون حیض نہیں ہو سکتا، اہل کوفہ اور اوزاعی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 444/1) 2۔
ایام حمل میں آنے والا خون حیض نہیں ہوتا، کیونکہ استقرارحمل کے بعد رحم کا منہ بند کردیا جاتا ہے اور خون حیض سے اللہ تعالیٰ بچے کی خوراک کا کام لیتا ہے اور جو نلکی بچے کی ناف سے لگی رہتی ہے وہ خون کو صاف بھی کرتی ہے اور اس کی وساطت سے صاف شدہ خون بچے کے لیے غذا کا کام بھی دیتا ہے، حمل قرارپانے کے بعد دوہی صورتیں ہیں۔
اس بچے کا
(مُّخَلَّقَةٍ) یعنی تام الخلقت ہونا مقدر ہوگا۔
پورا ہونا منظور نہ ہوگا۔
دوسری صورت میں سقط بن کر جائے گا۔
کرنے سے پہلے رحم کا منہ بندہے۔
وقت آنے پر رحم کا منہ کھول کر اسے گرادیا جائے گا اس لیے استقرارحمل کی صورت میں جو خون آرہا ہے وہ حیض کا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ رحم سے بر آمد نہیں ہوتا۔
اس لیے کہ اس کا منہ بند ہے نیز اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے حیض کی آمد کو علامت قراردیا گیا ہے۔
اگر بحالت حمل بھی حیض آسکتا ہے تو استبرائے رحم کا فیصلہ کیسے ہوگا؟
(فتح الباري: 543/1) 3۔
اگر نطفے سے اولاد کا ہونا اللہ کے ہاں مقدر نہیں ہوتا تو وہ خون حیض رحم میں بند ہو جاتا ہے اور وہ بچے کی پرورش پر صرف ہوتا ہے اور اگر اللہ کے ہاں اس نطفے سے اولاد کا ہونا مقدرنہیں ہوتا تو وہ خون کے ہمرا ہ رحم سے خارج ہوجاتا ہے. اولاد ہونے کی صورت میں اللہ کی طرف سے مختلف فرشتے متعین ہوتے ہیں جو مختلف اطوار میں بچے کی پرورش و پرواخت کرتے ہیں مختلف مراحل حسب ذیل ہیں۔
پہلے مرحلے میں نطفہ امشاج اپنی حالت میں چالیس دن تک رہتا ہے.
دوسرے مرحلے میں علقہ بن جاتا ہے اور چالیس دن اس خون بستہ پر گزرتےہیں۔
تیسرے مرحلے میں اسے مضغے کی شکل دی جاتی ہے اور چالیس دن اس گوشت کے لوتھڑے پر گزرتے ہیں۔
چوتھے مرحلے میں صورت ولد تیار ہوتی ہے اور اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چار ماہ بعد اس میں روح پڑتی ہے اور یہ تمام امور فرشتےکی نگرانی میں انجام پاتے ہیں، ان مراحل کا ذکر احادیث میں ہے۔
(صحیح البخاي، بدء الخلق، حدیث: 3208) 4۔
امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ حاملہ کے حیض آنے یا نہ آنے کو ثابت نہیں فرمایا، بلکہ ان کے اندر اور اسلوب سے اشارہ ملتا ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا، کیونکہ رحم میں بچے کا محفوظ ہونا خون حیض کے خروج کے لیے ایک رکاوٹ ہے۔
حافظ ابن حجر نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث مذکورسے عدم اتیان حیض کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ حدیث سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حاملہ رحم سے بر آمد ہونے والی چیز نا تمام بچہ ہے جس کی شکل و صورت نہیں ہوتی۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حاملہ کے رحم سے اگر بحالت حمل خون نکلے تو وہ حیض نہیں ہو گا۔
جن حضرات نے یہ دعوی کیا ہے کہ نکلنے والا خون بچے کی غذا کا فضلہ یا اس کے جسم سے ٹپکا ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ خون نکلا ہے تو اس دعوے کے ثبوت کے لیے دلیل درکار ہے اور جو اخبار وآثار اس سلسلے میں مروی ہیں وہ ثبوت دعوی کے لیے ناکافی ہیں، بلکہ یہ خون بھی دم حیض کی صفات کا حامل ہے اور اس وقت اس کے آنے کا امکان بھی ہوتا ہے، لہٰذا اسے دم حیض کا حکم دینا چاہیے اور جو اس کے خلاف دعوی کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے موقف کو دلیل سے ثابت کرے۔
(فتح الباري: 543/1) 5۔
آخر میں ہم زمین حجاز کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق لکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے ایک رسالے میں پیش کی ہے فرماتے ہیں:
”عام طور پر جب عورت کو استقرار حمل ہوتا ہے تو خون حیض رک جاتا ہے، چنانچہ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ عورتیں خون حیض کے رک جانے سے حمل کی پہچان کرتی ہیں۔
حاملہ کے خون دیکھنے کی دو صورتیں ہیں۔
اگر ولادت سے دو تین دن پہلے خون دیکھیں اور اس کے ساتھ دردزہ نہ ہو تو وہ نفاس کا خون ہوگا۔
* اگر ولادت سے بہت عرصہ پہلے خون دیکھیں یا چند دن پہلے کون آئے اور اس کے ساتھ دردِ زہ نہ ہو تو وہ نفاس نہیں ہوگا۔
نفاس نہ ہونے کی صورت میں اسے خون حیض قرار دیا جائے گا یا استحاضہ؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اسے خون حیض شمار کیا جائے گا۔
بشرطیکہ حیض کے معتاد طریقے کے مطابق ہو، کیونکہ اصل یہی ہے کہ عورت کو جو خون آتا ہے وہ حیض کا ہو تا ہے، بشرطیکہ کوئی ایسا سبب حائل ہو جائے کہ اس کی موجودگی میں اسے حیض نہ قراردیا جاسکتا ہو۔
کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی روسے ہم فیصلہ کریں کہ حاملہ کو حیض نہیں آسکتا، امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا یہی موقف ہے اور حافظ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
کہ امام بیہقی ؒ نے امام احمد ؓ سے یہی بات نقل کی ہے، بلکہ انھوں نے فرمایا کہ امام احمد کا پہلے عدم حیض کا موقف تھا جس سے انھوں نے رجوع کر لیا تھا۔
اس بنا پر حاملہ کے حیض کے وہی احکام ہوں گے جو غیر حاملہ کے حیض کے لیے ہوتے ہیں۔
البتہ دو مسائل میں اس کا حکم الگ ہوگا۔
غیر حاملہ کو ایام حیض میں طلاق دینا درست نہیں، کیونکہ اس حالت میں طلاق دینے سے ارشاد نبوی کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے کہ تم عورتوں کو طلاق دینا چاہوں تو طلاق عدت کے دنوں میں دو۔
“ (الطلاق: 65۔
1) لیکن حاملہ عورت کو بحالت حیض طلاق دینے سے یہ مخالفت لازم نہیں آتی، کیونکہ دوران حمل میں طلاق دینا اس سے عدت وضع حمل ہے جو ابھی نہیں ہو گا، اس لیے حاملہ کو دوران حیض میں طلاق دینا حرام نہیں، جبکہ غیر حاملہ کو دوران حیض میں طلاق دینا صحیح نہیں۔
حاملہ عورت کو اگر حیض آجائے تو اس سے عدت متاثر نہیں ہوگی اور نہ حیض سے اس کی عدت ہی شمار ہوگی، جبکہ غیر حاملہ کی عدت حیض ہی سے شمار ہوتی ہے، کیونکہ حاملہ کی عدت تو وضع حمل ہے، خواہ اسے حیض آئے یا نہ آئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ﴾ ”حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنے حمل کو جنم دے دیں۔
“ (الطلاق: 65۔
4) بہرحال اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ دوران حمل میں اگر خون آتا ہے تو عورت کو نماز روزہ ترک نہیں کرنا چاہیے اور نہ خاوند کو مقاربت کرنے ہی کی کوئی ممانعت ہے۔
واللہ أعلم۔
اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث کتاب القدر میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ۔