44. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الملک میں) ارشاد ”اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ کیا وہ اسے نہیں جانے گا جو اس نے پیدا کیا اور وہ بہت باریک دیکھنے والا اور خبردار ہے“۔
(44) Chapter. The Statement of Allah: “And whether you keep your talk secret or disclose it. Verily, He is the All-Knower of what is in the breasts (of men). Should not He Who has created know? And He is the Most Kind and Coueteous (to His slaves), All-Aware (of everything).” (V.67:13,14)
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» دعا کے بارے میں نازل ہوئی، یعنی دعا نہ بہت چلا کر مانگ نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔
Narrated `Aisha: The Verse:-- '(O Muhammad!) Neither say your prayer aloud nor say it in a low tone.' (17.110) was revealed in connection with the invocations.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 617
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7526
حدیث حاشیہ: 1۔ شارح صحیح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے مقصود اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علم کا ثابت کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آواز کا بلند یا پست ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، وہ تو دل کی باتوں کو بھی جانتا ہے لیکن اس مقصد کی نشان دہی پیش کردہ احادیث سے نہیں ہوتی۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں قول سے مراد عام ہے۔ اگر اس سے مراد قرآن کریم ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہو چکا ہے اور اگر اس سے مراد عام گفتگو ہے تو وہ بندے کا فعل ہے جو مخلوق ہے جیسا کہ آیت کے آخری حصے میں ہے: ”کیا وہ اپنی مخلوق کے متعلق معلومات نہیں رکھتا۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی گفتگو، خواہ باآواز بلند ہو یا آہستہ وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 624/13) 3۔ ابن منیر نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مقصد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ بندے کی تلاوت بلند اور آہستہ ہوتی ہے جو بندے کا فعل ہے اور مخلوق ہے البتہ جو چیز پڑھی جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ خلق قرآن کے متعلق آزمائش میں بھی ڈالے گئے تھے، اس لیے اس مسئلے کو مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 624/13) ہماری رجحان کے مطابق آخری موقف ہی مبنی برحقیقت اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کی ترجمانی کرتا ہے اور پیش کردہ احادیث سے بھی اسی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7526