الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 877
´رکوع اور سجدے میں دعا کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» کہتے تھے اور قرآن کی آیت «فسبح بحمد ربك واستغفره» (سورة النصر: ۳) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 877]
877۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» نازل ہوئی تو اس میں یہ ارشاد ہوا کہ «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا» ”سو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا کو رکوع اور سجدے میں اپنا معمول بنا لیا۔
➋ اس دعا میں تسبیح، تحمید اور دعا تینوں چیزیں جمع ہیں۔ اور سابقہ حدیث میں جو آیا ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی عظمت اور سجدے میں دعا خوب کیا کرو، تو ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ رکوع میں تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ دعا جائز ہے اور ایسے ہی سجدے میں دعا کے ساتھ تسبیح و تحمید بھی۔ ➌ اس کی دوسری توجیح یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رکوع میں تعظیم رب اور سجدے میں کثرت دعا افضل و اولیٰ ہے اور اس مقصد کے لئے ماثور کلمات کا انتخاب ہی ارجح ہے، نوافل میں حسب مطلب بھی دعا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 877