فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 169
´بغیر شہوت بیوی کو چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، تو اپنے ہاتھ سے آپ کو ٹٹولنے لگی، تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا، آپ کے دونوں قدم کھڑے تھے اور آپ سجدے میں تھے، کہہ رہے تھے: «أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» ”اے اللہ! پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، اور تیری عافیت کی تیرے عذاب سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری شمار کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی ہے۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 169]
169۔ اردو حاشیہ:
➊ مندرجہ بالا چاروں احادیث باب کے مضمون پر دلالت کرتی ہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے پیش نظر نماز کے دوران میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوا اور نماز پڑھتے رہے، گویا وضو نہ ٹوٹا۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور نماز میں کوئی فرق نہ پڑا۔
➋ یہ باب قائم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض فقہاء، مثلاً: امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ذخیرہ حدیث میں ہے تو کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس میں عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹنے کا صراحتاً یا اشارتاً ذکر ہو بلکہ اس کے خلاف بہت ساری احادیث ہیں، البتہ قرآن مجید کی ایک آیت کے الفاظ: ﴿اولامستم النسآء﴾ [المآئدۃ 6: 5]
سے استدلال کیا جاتا ہے مگر یہ استدلال عقلاً اور نقلاً بعید ہے۔ یہاں یہ الفاظ جماع کا مفہوم مراد لینے کے لیے آئے ہیں نہ کہ مطلق چھونے کے لیے، نیز یہ معنیٰ مراد لینے سے ان تمام احادیث کی دورازکار تاویلیں کرنی پڑیں گی یا انہیں چھوڑنا پڑے گا۔ دونوں صورتیں اچھی نہیں۔
➌ امام نسائی رحمہ اللہ کے باب اور احادیث سے واضح ہے کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، چاہے شہوت سے ہو (جیسا کہ اگلے باب میں وضاحت ہے) یا بغیر شہوت کے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
➍ ان روایات سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے لیٹا ہوا ہونا، خواہ اس کی بیوی ہی ہو کوئی حرج والی بات نہیں، البتہ نمازی کے آگے سے گزرنا ایک الگ چیز ہے، اس سے نمازی کے خشوع میں فرق پڑے گا اور گزرنے والا سخت گناہ گار ہو گا۔
➎ سجدے میں پاؤں گاڑنا (سیدھے کھڑے رکھنا) مستحب ہے۔
➏ سجدے میں دعا کرنا مستحب عمل ہے کیونکہ یہ قبولیت دعا کی حالت ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے غصے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتے رہنی چاہیے۔
➑ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی بیان کرتے ہوئے مخلوق کا اس کی کماحقہ تعریف کرنے سے عاجزی کا اعتراف کرتے رہنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 169