مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2123
´نذر سے ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سخی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔
اسے نذر ماننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
(2)
مشروط نذر ماننا بخیلوں کا کام ہے۔
نذر ماننے والا کہتا ہے:
اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مصیبت ٹل گئی تو اتنی رقم صدقہ کروں گا، گویا وہ کہہ رہا ہے کہ اگر میرا کام نہ ہوا تو یہ صدقہ نہیں کروں گا۔
اس لحاظ سے نذر مکروہ ہے۔
(3)
غیر مشروط نذر یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ سے وعدہ کرے کہ فلاں نیکی کا کام کروں گا۔
یہ ثواب کا کام ہے۔
(4)
نذر ایک عبادت ہے اس لیے نذر خواہ مخواہ مشروط ہو یا غیر مشروط صرف اللہ ہی کے لیے ماننی چاہیے۔
کسی ولی، مزار یا بت وغیرہ کے لیے نذر ماننا اس کی عبادت ہے جو شرک ہے۔
(5)
اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔
(6)
ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے لیکن دعا، نذر اور دیگر عبادتوں کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اسی سے امید وابستہ کرتے ہیں کہ اپنی رحمت سے ہماری حاجتیں پوری کرے اور مشکلات دور فرمائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2123