عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ ہم لوگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اتنے میں آپ کا کھانا لایا گیا تو قاسم (قاسم بن محمد) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، یہ دیکھ کر وہ بولیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کھانا موجود ہو تو نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس حال میں پڑھی جائے جب دونوں ناپسندیدہ چیزیں (پاخانہ و پیشاب) اسے زور سے لگے ہوئے ہوں“۔
Narrated Abd Allaah bin Muhammad: We were in the company of Aishah. When her food was brought in, al-Qasim stood up to say his prayer. Thereupon, Aishah said: I heard the Messenger of Allaah ﷺ say: Prayer should not be offered in presence of meals, nor at the moment when one is struggling with two evils (e. g. when one is feeling the call of nature. )
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 89
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 89
فوائد و مسائل: ➊ اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد (لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہو گئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔ ➋ خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جو انسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کر کے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کو بچہ پریشان کر رہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 89
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1246
حضرت ابن ابی عتیق سے روایت ہے کہ میں نے اور قاسم نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک گفتگو کی اور قاسم گفتگو میں اعرابی غلطی بہت کرتے تھے کیونکہ وہ لونڈی کے بیٹے تھے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے کہا، کیا بات ہے تم میرے اس بھتیجے کی طرح گفتگو نہیں کرتے ہو؟ ہاں، میں جانتی ہوں تم میں یہ بات کہاں سے آئی ہے، اس کو اس کی ماں نے ادب سکھایا (تعلیم دی) اور تجھے تیری ماں نے ادب سکھایا، اس پر قاسم ناراض ہو گیا اور حسد و کینہ کا اظہار... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1246]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَحَّانَةً: اعراب میں بہت غلطی کرنے والا۔ (2) مِنْ اَيْنَ اَتَيْتَ: تجھ میں یہ اعرابی غلطی کہاں سے آئی۔ (3) اَضَبَّ: ضب (حسد و کینہ) سے ماخوذ ہے، طیش اورغصہ کا اظہار کیا۔ (4) غُدَرُ: یعنی اےبےوفا۔ (5) اَلْاَخْبَثَان: پیشاب وپاخانہ۔ (6) يُدَافِعُ: ہٹانا، دور کرنا مراد ان کو روکنا ہے۔