عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: ”اسے کچھ دے دو“، انہوں نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہاری حطمی زرہ ۱؎ کہاں ہے؟“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 76 (3378)، (تحفة الأشراف: 6000)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/8) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”حطمي“: زرہ ہے جو تلوار کو توڑ دے، یا حطمہ کوئی قبیلہ تھا جو زرہ بنایا کرتا تھا۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ شب زفاف (سہاگ رات) میں پہلی ملاقات کے وقت بیوی کو کچھ ہدیہ تحفہ دینا مستحب ہے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: When Ali married Fatimah, the Prophet ﷺ said to him: Give her something. He said: I have nothing with me. He said: Where is your Hutamiyyah (coat of mail).
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2120
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر سنن النسائي (3377 وسنده صحيح، 3378) وللحديث طرق أخريٰ، أنظر مسند الحميدي (38 بتحقيقي)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 883
´حق مہر کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے کچھ دو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 883»
تخریج: «أخرجه أبوداود، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2125، والنسائي، النكاح، حديث:3377، والحاكم: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):9 /50.»
تشریح: 1. اس حدیث سے مسئلۂ مہر کے علاوہ یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ماکان وما یکون حاصل نہیں تھا‘ اسی لیے آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت فرما رہے تھے کہ تمھاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ ورنہ یوں فرماتے کہ تمھاری حطمی زرہ جو فلاں مقام پر تم نے رکھی ہوئی ہے وہ لا کر دے دو۔ 2.یہ بھی معلوم ہوا کہ سسر حق مہر کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ البتہ داماد سے وہی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو۔ ایسی چیز کا تقاضا و مطالبہ نہ کیا جائے جو اس کے بس میں نہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 883