حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: اخبرني نافع، عن ابن عمر، قال: كان عاشوراء يوما نصومه في الجاهلية. فلما نزل رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا يوم من ايام الله فمن شاء صامه ومن شاء تركه". حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا نَصُومُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللَّهِ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے“۔
Ibn Umar said: Ashurah was a day on which we used to fast in pre-Islamic days. When (fasting of) Ramadan was prescribed, the Messenger of Allah ﷺ said: This is one of the days of Allah ; he who wishes may fast on it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2437
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4501) صحيح مسلم (1126)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1737
´یوم عاشوراء کا روزہ۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1737]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوا کہ یہ روزہ فر ض نہیں البتہ ثواب کا کا م ضرور ہے (2) جاہلیت کے جس کام کی تائید قرآن وحدیث سے ہو جائے وہ ہماری شریعت کا حکم بن جاتا ہے پھر اسے جاہلیت کا کام سمجھ کر نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور جس کام سے منع کر دیا جائے وہ با لکل حرام ہوتا ہے جس کام کے بارے میں حکم یا ممانعت کی دلیل نہ ملے اس سے اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے کاموں میں یہود و نصاری کی مخالفت کی ہے حتی کے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھ لیا کہ کفار کی مخالفت اسلام کا ایک اصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشوره ہوا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ناقوس بجانے اور آگ جلانے کی تجویز رد کر دی كہ یہ غیر مسلمو ں کا طر یقہ ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: (سنن ابن ماجة، الأذان، باب بدء الأذان، حدیث: 707)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1737
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2443
´یوم عاشورہ (دسویں محرم) کے روزہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
فوائد ومسائل: دن تو سارے ہی اللہ کے ہیں، مگر جن ایام میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو اور دینی و شرعی اعتبار سے ان کی اہمیت ہو، تو انہیں (أَيَّامَ ٱللَّهِ) کہا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2443