حدثنا محمد بن المتوكل العسقلاني، والحسن بن علي، قالا: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى ولا طيرة ولا صفر ولا هامة". فقال اعرابي: ما بال الإبل تكون في الرمل كانها الظباء، فيخالطها البعير الاجرب، فيجربها، قال: فمن اعدى الاول، قال معمر: قال الزهري: فحدثني رجل، عن ابي هريرة، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يوردن ممرض على مصح، قال: فراجعه الرجل، فقال: اليس قد حدثنا عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا عدوى ولا صفر ولا هامة؟" قال: لم احدثكموه؟ قال الزهري: قال ابو سلمة: قد حدث به وما سمعت ابا هريرة نسي حديثا قط غيره. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَّةَ". فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا بَالُ الْإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيُخَالِطُهَا الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ، فَيُجْرِبُهَا، قَالَ: فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ، قَالَ مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ، قَالَ: فَرَاجَعَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَنَا عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ؟" قَالَ: لَمْ أُحَدِّثْكُمُوهُ؟ قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَدْ حَدَّثَ بِهِ وَمَا سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ نَسِيَ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی چیز میں نحوست ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے“ تو ایک بدوی نے عرض کیا: پھر ریگستان کے اونٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ہرن کے مانند (بہت ہی تندرست) ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارشتی اونٹ جا ملتا ہے تو انہیں بھی کیا خارشتی کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا پہلے اونٹ کو کس نے خارشتی کیا؟“۔ معمر کہتے ہیں: زہری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے ابوہریرہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے ساتھ پانی پلانے کے لیے نہ لایا جائے“ پھر وہ شخص ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے کہا: کیا آپ نے مجھ سے یہ حدیث بیان نہیں کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، اور نہ کسی کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے“ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، اور کہا: میں نے اسے آپ لوگوں سے نہیں بیان کیا ہے۔ زہری کا بیان ہے: ابوسلمہ کہتے ہیں: حالانکہ انہوں نے اسے بیان کیا تھا، اور میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کبھی کوئی حدیث بھولتے نہیں سنا سوائے اس حدیث کے۔
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: There is no infection, no evil, omen or serpent, in a hungry belly and no hamah. A nomadic Arab asked: How is it that when camels are in the sand as if they were gazelles and a mangy camel comes among them and it gives them mange ? He replied: Who infected the first one ? Mamar, quoting al-Zuhri said: A man told me that Abu Hurairah narrated to him saying that he heard the Prophet ﷺ say: A diseased camel should not be brought with a healthy camel to drink water. He said: The man then consulted him and said: Did you not tell us that Prophet ﷺ had said: There is no infection, no serpent in a hungry belly and no hamah? He replied: I did not transmit it to you. Al-Zuhri said: Abu Salamah said: He had narrated it and I did not hear that Abu Hurairah had ever forgotten any tradition except this one.
USC-MSA web (English) Reference: Book 29 , Number 3902
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5770) صحيح مسلم (2220)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3911
´بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی چیز میں نحوست ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے“ تو ایک بدوی نے عرض کیا: پھر ریگستان کے اونٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ہرن کے مانند (بہت ہی تندرست) ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارشتی اونٹ جا ملتا ہے تو انہیں بھی کیا خارشتی کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا پہلے اونٹ کو کس نے خارشتی کیا؟۔“ معمر کہتے ہیں: زہری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے ابوہریرہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3911]
فوائد ومسائل: 1) رسول اللہ ﷺ نے اعرابی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سمجھایا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایک خارش زدہ اُونٹ نے باقی اُنٹ بھی خارش زدہ کر دیئے، بلکہ سن کچھ اللہ کی طرف سے اور اس کی مشیت سے ہو تا ہے۔ ایک گلے میں کتنے ہی اُونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ بھی رہتے ہیں 2) بیمار اُونٹ کا صحت مند کے ساتھ ملانے کی ممانعت اس غرض سے ہے کہ کم علم لوگ لا یعنی اوہامیں مبتلا نہ ہوں۔
3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا پہلے حدیث بیان کرکےاس کا انکار کرنا کو ئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3911