عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مساجد میں حدود نہ جاری کی جائیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدیات 9 (1401)، (تحفة الأشراف: 5740)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الدیات 6 (2402) (حسن)» (اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ ذکر، تلاوت اور نماز وغیرہ کی جگہ ہے، اس میں مار پیٹ سزا وغیرہ مناسب نہیں، کیونکہ چیخ و پکار سے مسجد کے احترام میں فرق آئے گا، نیز اس کے خون وغیرہ سے نجاست کا بھی خطرہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1401) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 472
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 201
´مساجد کا بیان` سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مساجد میں نہ تو حدود قائم کی جائیں اور نہ ہی ان میں قصاص (خون کا بدلہ) لیا جائے۔“ اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 201]
201لغوی تشریح: «لا تقام» «إقامة» سے ماخوذ ہے، یعنی (حدیں) نافذ نہ کی جائیں۔ «الحدود» وہ سزائیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے کہ فلاں جرم کی سزا فلاں ہے۔ «ولا يستقاد» صیغہ مجہول۔ قصاص نہ لیا جائے۔ «بسند ضعيف» ضعیف سند، یعنی یہ حدیث ضعیف ہے لیکن خود مصنف، یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص میں اس کی سند کے بارے میں «لا بأس بإسناد»”اس کی سند میں کوئی حرج نہیں“ کہا ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے، بنابریں اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجدوں میں حدیں قائم نہ کی جائیں اور قصاص بھی نہ لیا جائے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ سزا پانے والے کا خون یا گندگی پیٹ سے خارج ہو جائے یا مسجد میں شور و غوغا ہو۔ ➋ مسجد میں فیصلے کے لیے عدالت قائم کی جا سکتی ہے۔
راوی حدیث: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ، حزام کی ”حا“ کے نیچے کسرہ ہے۔ ان کی کنیت ابوخالد ہے۔ قریش کے قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھانجے ہیں۔ اشراف قریش میں شمار ہوتے تھے۔ واقعہ فیل سے 13 سال پہلے خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ 54 ہجری میں یا اس کے بعد مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 120 برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 201
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1401
´آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجدوں میں حدود نہیں قائم کی جائیں گی اور بیٹے کے بدلے باپ کو (قصاص میں) قتل نہیں کیا جائے گا۔“[سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1401]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: لیکن شواہد کی بنا پر حدیث حسن ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1401