سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One\'s Hands Together)
82. بَابُ : هَلْ يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ سَجْدَةٌ أَطْوَلَ مِنْ سَجْدَةٍ
82. باب: کیا یہ جائز ہے کہ ایک سجدہ دوسرے سجدہ سے لمبا ہو؟
Chapter: Is it permissible to make one prostration longer than the other?
حدیث نمبر: 1142
Save to word اعراب
اخبرنا عبد الرحمن بن محمد بن سلام قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: انبانا جرير بن حازم قال: حدثنا محمد بن ابي يعقوب البصري، عن عبد الله بن شداد، عن ابيه، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في إحدى صلاتي العشاء وهو حامل حسنا او حسينا فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضعه، ثم كبر للصلاة فصلى فسجد بين ظهراني صلاته سجدة اطالها قال: ابي فرفعت راسي وإذا الصبي على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ساجد فرجعت إلى سجودي فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة قال الناس: يا رسول الله إنك سجدت بين ظهراني صلاتك سجدة اطلتها حتى ظننا انه قد حدث امر او انه يوحى إليك قال:" كل ذلك لم يكن ولكن ابني ارتحلني فكرهت ان اعجله حتى يقضي حاجته".
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ فَصَلَّى فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا قَالَ: أَبِي فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِكَ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ قَالَ:" كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ".
شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں میں سے کسی ایک نماز کے لیے نکلے، اور حسن یا حسین کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو انہیں (زمین پر) بٹھا دیا، پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی، اور نماز شروع کر دی، اور اپنی نماز کے دوران آپ نے ایک سجدہ لمبا کر دیا، تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر ہے، اور آپ سجدے میں ہیں، پھر میں اپنے سجدے کی طرف دوبارہ پلٹ گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ اتنا لمبا کر دیا کہ ہم نے سمجھا کوئی معاملہ پیش آ گیا ہے، یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، البتہ میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لی تھی تو مجھے ناگوار لگا کہ میں جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی خواہش پوری کر لے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، حم3/493، 6/467، (تحفة الأشراف: 4832) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1142 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1142  
1142۔ اردو حاشیہ:
حادثہ مرض یا وفات سے کنایہ ہے، تبھی تو صحابی کو تشویش ہوئی اور سر اٹھا کر دیکھا۔
➋ بلاوجہ سجدے کے درمیان سر اٹھانا منع ہے مگر کوئی عذر ہو، مثلاً: پیشانی کے نیچے کوئی تکلیف دہ چیز آگئی ہو یا سر میں شدید درد محسوس ہو یا امام کی حالت دیکھنا مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق سر اٹھایا جا سکتا ہے۔ عذر ختم ہونے پر دوبارہ سجدے میں چلا جائے۔ یہ دو سجدے نہیں بنیں گے، ایک ہی رہے گا کیونکہ نیت معتبر ہے۔
➌ بچوں کی خوشی کا اس قدر لحاظ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے در یتیم ہی سے ہو سکتا ہے۔ یقیناًً ایسا فعل دگنے ثواب کا حامل ہے کہ عبادت میں بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق کی دل جوئی بھی ہوئی۔
➍ قرابت کے اعتبار سے نواسے کو بیٹا کہنا درست ہے اگرچہ وہ وراثت کے اعتبار سے بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1142   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.