اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن سليمان، عن خيثمة، عن ابي عطية، قال: قلت لعائشة:" فينا رجلان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، احدهما يعجل الإفطار ويؤخر السحور، والآخر يؤخر الإفطار ويعجل السحور، قالت: ايهما الذي يعجل الإفطار ويؤخر السحور؟ قلت: عبد الله بن مسعود، قالت: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ:" فِينَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ السُّحُورَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ السُّحُورَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا الَّذِي يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ السُّحُورَ؟ قُلْتُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ".
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ہم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں ان دونوں میں سے ایک افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر، اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے، اور سحری میں جلدی، انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر؟ میں نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2160
اردو حاشہ: دوسرے صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، وہ احتیاطاً افطار میں دیر اور سحری میں جلدی فرماتے تھے، مگر احتیاط اتنی لمبی نہیں چاہیے کہ مسنون عمل میں تبدیلی آجائے، احتیاط تو چند منٹ کی ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ سورج غروب ہونے کا یقین کیے بغیر جلدی روزہ کھول لیا جائے یا صبح کی اذان کے دوران میں بھی سحری کھانے کی عادت ڈال لی جائے۔ کیونکہ اس طرح روزہ ضائع ہو سکتا ہے۔ بعض جلد باز حضرات غلط سلط کلینڈروں کو دیکھ کر سیکنڈوں کے حساب سے روزہ کھولتے ہیں، حالانکہ ضروری ہے کہ کلینڈر محکمہ موسمیات اور صدگاہوں کے ماہرین کا تصدیق شدہ ہو یا پھر کلینڈر کو سورج دیکھ کر مصدقہ بنا لیا جائے۔ کلینڈروں میں دوسرے شہروں کے اوقات میں فرق یکساں نہیں ہوتا، مثلاً: لاہور سے فیصل آباد کا فرق کسی کلینڈر میں دس منٹ، کسی میں نو، کسی میں آٹھ، کسی میں چھ، کسی میں پانچ منٹ لکھا ہوتا ہے، لہٰذا کلینڈر کی رو سے روزہ افطار کرنے والے حضرات غیر معیاری کلینڈروں سے اپنا روزہ ضائع نہ کریں۔ جب تک غروب کا یقین نہ ہو، روزہ نہیں کھولنا چاہیے۔ یقین سے مراد آنکھوں سے سورج عین افق میں غروب ہوتا دیکھنا ہے، جبکہ مطلع صاف ہو۔ یا پھر سب سے آخری کلینڈر پر عمل کرنا ہے۔ اس طرح تین چار منٹ کی تاخیر سے اول وقت افطار گزر نہیں جائے گا۔ تاخیر (جو مکروہ ہے) سے مراد ستارے نظر آنے کا انتظار ہے جو یہودی کرتے ہیں نہ کہ غروب کے یقین کا انتظار۔ افسوس! کہ آج کل تو مقابلے میں اذانیں کہی جاتی ہیں کہ جلدی اذان کہو، کہیں فلاں مسجد کی اذان ہم سے پہلے یا ہمارے برابر نہ ہو جائے۔ اس طرح لوگوں کے روزے خراب کیے جاتے ہیں۔ جو یقینا گناہ ہے اور جلدی کے شوق میں کیا جاتا ہے۔ واللہ المستعان
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2160