انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی
(دیہاتی) آئے اور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں
۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا
۲؎ اور آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے
(کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں، یہ صحیح ہے
“، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں
“، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں
(کیا ایسا ہے؟)، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں
“، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
”ہاں
“، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں
(کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں وہ
(سچ کہہ رہا ہے)“ اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں
(دیا ہے)“، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے
(کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں
(اس نے سچ کہا)“۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں،
“ (دیا ہے) اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو
(کیا یہ سچ ہے؟)، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں،
(حج فرض ہے)“ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں
(دیا ہے)“ تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا
۳؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے
۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .»
”. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63]
� تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 63
63. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ”(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔“ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!“ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اللہ گواہ ہے۔“ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:63]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔
مسنداحمد میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یوں ہے "فأناخ بعیره علی باب المسجد" یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔
اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللهم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔
اللهم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت پورے اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔
ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔
پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔
کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ ﷺ سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔
لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2094
´روزے کی فرضیت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر آیا، اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، (اور) لوگوں سے پوچھا: تم میں محمد کون ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا: یہ گورے چٹے آدمی ہیں، جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، آپ کو پکار کر اس شخص نے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”میں نے تمہاری بات سن لی“ (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
(1) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے…
(2) ”ابن عبدالمطلب“ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوۂ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ] (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2842، وصحیح مسلم، الجهاد، حدیث 1776)
(3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔
(4) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2094
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2095
´روزے کی فرضیت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر سوار آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھا کر باندھا (اور) لوگوں سے پوچھا: تم میں محمد کون ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے کہا: یہ گورے چٹے آدمی ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، تو (اس) شخص نے (پکار کر) آپ سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”میں نے تمہاری ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2095]
اردو حاشہ:
یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: 20 235)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2095