حدثنا قتيبة، اخبرنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: جاء عبد فبايع النبي صلى الله عليه وسلم على الهجرة، ولا يشعر النبي صلى الله عليه وسلم انه عبد، فجاء سيده يريده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " بعنيه فاشتراه بعبدين اسودين "، ثم لم يبايع احدا بعد حتى يساله اعبد هو. قال: وفي الباب، عن انس. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، انه لا باس بعبد بعبدين يدا بيد، واختلفوا فيه إذا كان نسيئا.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِعْنِيهِ فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ "، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّى يَسْأَلَهُ أَعَبْدٌ هُوَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِعَبْدٍ بِعَبْدَيْنِ يَدًا بِيَدٍ، وَاخْتَلَفُوا فِيهِ إِذَا كَانَ نَسِيئًا.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جان سکے کہ یہ غلام ہے۔ اتنے میں اس کا مالک آ گیا وہ اس کا مطالبہ رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تم اسے مجھ سے بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ کسی سے اس وقت تک بیعت نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کر لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ ایک غلام کو دو غلام سے نقدا نقد خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب ادھار ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 23 (البیوع 44)، (1602)، سنن ابی داود/ البیوع 17 (3358)، سنن النسائی/البیعة 21 (4189)، و البیوع 66 (4625)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 41 (2896)، مسند احمد (3/372)، ویأتي عند المؤلف في السیر 36 (1596)، (تحفة الأشراف: 2904) (صحیح)»
جاء عبد فبايع رسول الله على الهجرة ولا يشعر النبي أنه عبد فجاء سيده يريده فقال النبي بعنيه فاشتراه بعبدين أسودين ثم لم يبايع أحدا بعد حتى يسأله أعبد هو
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2869
´بیعت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غلام مجھے بیچ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2869]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح آقا اس سے خدمت لینے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔
(2) غلاموں اور مویشیوں کی خرید وفروخت تعداد میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی صورت جائز ہے مثلاً: ایک عمدہ بھیڑ کے بدلے میں دو ادنٰی قسم کی بھیڑیں یا دو میمنے لینا یا دینا جائز ہے جبکہ زرعی اشیاء کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست نہیں مثلاً: ایک من عمدہ گندم کا ڈیڑھ من ہلکی قسم کی گندم سے تبادلہ درست نہیں۔ (دیکھیے: سنن ابن ماجه حديث: 2252) 3۔
(3) نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔ علم غیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2869
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1596
´غلام کی بیعت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اسے بیچ دو“، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1596]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید وفروخت بصورت نقد ہو، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے، کیوں کہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1596