سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
The Book on Drinks
16. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّنَفُّسِ فِي الإِنَاءِ
16. باب: پیتے وقت برتن میں سانس لینے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1889
Save to word مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا شرب احدكم فلا يتنفس في الإناء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ چھوڑے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 18 (153)، و 19 (154)، والأشربة 25 (5630)، صحیح مسلم/الطہارة 18 (267)، سنن ابی داود/ الطہارة 18 (31)، (تحفة الأشراف: 12105)، و مسند احمد (5/295، 296، 300، 309، 310) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث بظاہر انس رضی الله عنہ کی اس حدیث کے معارض ہے «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتنفس في الإناء ثلاثا» یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے، ابوقتادہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی برتن سے پانی پیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹائے بغیر برتن میں سانس لیتا ہے تو یہ مکروہ ہے، اور انس رضی الله عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے، اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے جدا رکھتے تھے، اس توجیہ سے دونوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (23)
   صحيح البخاري5630حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء إذا بال أحدكم فلا يمسح ذكره بيمينه إذا تمسح أحدكم فلا يتمسح بيمينه
   صحيح البخاري153حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء إذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه لا يتمسح بيمينه
   صحيح مسلم615حارث بن ربعييتنفس في الإناء يمس ذكره بيمينه أن يستطيب بيمينه
   جامع الترمذي1889حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء
   سنن النسائى الصغرى48حارث بن ربعييتنفس في الإناء يمس ذكره بيمينه أن يستطيب بيمينه
   سنن النسائى الصغرى47حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في إنائه إذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه لا يتمسح بيمينه
   بلوغ المرام83حارث بن ربعيا يمسن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول،‏‏‏‏ ولا يتمسح من الخلاء بيمينه،‏‏‏‏ ولا يتنفس في الإناء
   بلوغ المرام904حارث بن ربعيإذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1889 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1889  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث بظاہر انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے معارض ہے (أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا) یعنی نبی اکرم ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
ابوقتادہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی برتن سے پانی پیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹائے بغیر برتن میں سانس لیتا ہے تو یہ مکروہ ہے،
اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے جدا رکھتے تھے،
اس توجیہ سے دونوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1889   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 83  
´دائیں ہاتھ سے اپنے عضو کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يمسن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول،‏‏‏‏ ولا يتمسح من الخلاء بيمينه،‏‏‏‏ ولا يتنفس فى الإناء . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو ہرگز نہ چھوئے اور قضائے حاجت کے بعد سیدھے ہاتھ سے استنجاء بھی نہ کرے۔ نیز پانی پیتے وقت اس میں سانس بھی نہ لے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 83]
لغوی تشریح:
«لَا یَمَسَّنَّ» «مَسّ» سے نہی کا صیغہ ہے اور نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔
«وَلَا یَتَمَسَّحُ» یعنی استنجا نہ کرے۔
«تَمَسُّح» کے معنی ہیں: ہاتھ کو پھیرنا اور ملنا تاکہ بہنے والی گندگی دور ہو جائے، یا ناپاک چیز سے لتھڑی ہوئی شے کو ہاتھ سے صاف کرنا۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث میں تین مسئلے بیان کیے گئے ہیں:
➊ ایک یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے۔ دوسرا یہ کہ اس ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ ایسا کرنا حرام بھی ہے اور سوء ادب اور کم ظرفی بھی۔ اور تیسرا یہ کہ کوئی مشروب وغیرہ پیتے وقت برتن میں سانس نہ لے۔
➋ برتن میں سانس لینا اس لیے ممنوع ہے کہ سانس کے ذریعے سے خارج ہونے والے جراثیم پیے جانے والے مشروب وغیرہ میں شامل ہو کر معدے میں داخل ہوں گے۔ یہ جراثیم طبی تحقیق کی رو سے صحت کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔
➌ جس حدیث میں سانس لینے کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پینے والا ایک ہی سانس میں غٹ غٹ نہ چڑھا جائے بلکہ تین دفعہ پیے اور سانس باہر نکالے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 83   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 904  
´ولیمہ کا بیان`
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی مشروب پی رہا ہو تو برتن میں سانس نہ لے۔ (بخاری و مسلم) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی روایت ابوداؤد میں بھی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے اس میں پھونک نہ مارے۔ اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 904»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأشربة، باب النهي عن التنفس في الإناء، حديث:5630، ومسلم، الأشربة، كراهة التنفس في نفس الإناء.....، حديث:267 بعد حديث:2027، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الأشربة، حديث:3728، والترمذي، الأشربة، حديث:1889 وسنده صحيح.»
تشریح:
1. اس حدیث میں برتن میں سانس لینے کی ممانعت ہے۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ برتن میں سانس لینے سے اندیشہ ہے کہ مشروب میں تھوک یا رال ٹپک جائے جو دوسرے آدمی کی طبیعت پر ناگوار گزرے‘ نیز سانس کے ذریعے سے پھیپھڑے سے جو ہوا نکلتی ہے اس میں فاسد مادوں کا اثر ہوتا ہے جو صحت کے لیے ضررر ساں ہے۔
2.افضل یہ ہے کہ انسان تین سانس میں پیے اور برتن کو منہ سے الگ کر کے سانس لے۔
3.کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنا بھی جائز نہیں۔
اگر کھانا یا مشروب زیادہ گرم ہو تو انتظار کر کے اور ٹھنڈا کر کے کھائے پیے۔
اسی طرح اگر کوئی تنکا وغیرہ اس میں گر پڑا ہو تو ہاتھ سے نکال لے‘ پھونک نہ مارے 4.بعض علماء تبرک کے لیے قرآن کریم یا کوئی دعا پڑھ کر دم کرنے کو بھی ناجائز کہتے ہیں جبکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ اور مسنون ادعیہ پڑھنے سے اس میں کچھ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے‘ اس لیے وہ دم کر کے پھونک مارنے کو ممنوع نفخ میں شامل نہیں کرتے بلکہ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے سنن ابو داود، اردو، طبع دارالسلام‘ حدیث: ۳۷۲۲ کے فوائد و مسائل دیکھیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 904   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 153  
´داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، وَإِذَا أَتَى الْخَلَاءَ فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ . . .»
. . . عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ النَّهْيِ عَنْ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ: 153]
تخريج الحديث:
[151۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 18 باب النهي عن الاستنجاء باليمين 153، مسلم 267، ابن ماجه 310]
لغوی توضیح:
«لَا يَتَنَفَّسْ» سانس نہ لے۔
«لَا يَتَمَسَّحْ» استنجاء نہ کرے۔ معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 151   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 47  
´داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئیے تو اپنے برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کے لیے آئے تو اپنے داہنے ہاتھ سے ذکر (عضو تناسل) نہ چھوئے، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 47]
47۔ اردو حاشیہ:
➊ برتن میں سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ پیتے پیتے سانس لے، یہ ممنوع ہے۔ شاید یہ ممانعت اس لیے ہو کہ اس صورت میں ناک سے سانس کے ساتھ غلاظت خارج ہونے کا احتمال ہوتا ہے کہ جس سے مشروب آلودہ ہو جائے گا، نیز سانس کے ساتھ پھیپھڑے کے فاسد مادوں کی آمیزش ہوتی ہے وہ بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے، نیز اس میں جانوروں سے مشابہت ہے، وہ پیتے پیتے سانس لیتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کیا جائے۔
➋ چونکہ دایاں ہاتھ کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور عقل سلیم بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ کھانے اور استنجے کے لیے ایک ہی ہاتھ کا استعمال نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 47   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 615  
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے: کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے، کہ کوئی برتن میں سانس لے، یا یہ کہ اپنے ذکر کو اپنا دایاں ہاتھ لگائے، یا یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:615]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
پانی پیتے وقت سانس برتن کے اندر نہیں لینا چاہیے،
بلکہ برتن کو منہ سے دور کرلینا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 615   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5630  
5630. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لےاور جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنی شرمگاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے۔ اور جب استنجا کرے تو دائیں ہاتھ سے نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5630]
حدیث حاشیہ:
ان خدمات کے لیے اللہ نے بایاں ہاتھ بنایا ہے اور سیدھا ہاتھ کھانے پینے اورجملہ ضروری کاموں کے لیے ہے، اس لیے ہر ہاتھ سے اس کی حیثیت کا کام لینا چاہیئے۔
برتن میں سانس لینا طب کی رو سے بھی ناجائز ہے۔
اس طرح معدہ کے بخارات اس میں داخل ہو سکتے ہیں (فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5630   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:153  
153. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے، نیز جب بیت الخلا آئے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوئے اور نہ اس سے استنجا کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:153]
حدیث حاشیہ:

قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ استنجا کے لیے دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قدرت نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت دی ہے۔
اس لیے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس سے ادنیٰ اور ارذل کام نہ لیے جائیں۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے جب کھانا کھاتے وقت استنجا سے متعلقہ بات یاد آئے گی توطبیعت میں تکدر اور ناگواری پیدا ہوگی۔
اہل ظاہر کے نزدیک یہ نہی حرمت کے لیے ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگردائیں ہاتھ سے استنجا کیا تو اس سے طہارت نہیں ہوگی جبکہ جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ اس کا تعلق آداب سے ہے۔
(عمدة القاري: 420/2)

حدیث میں استنجا کے متعلق دو جملے استعمال ہوئے ہیں:
پہلا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے عضو مستور کو نہ چھوئے۔
اس کا تعلق پیشاب سے ہے۔
اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔
اس سے مراد ہے کہ فراغت کے بعد دائیں ہاتھ کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
پیشاب کرتے وقت کبھی کبھی چھینٹوں سے بچنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور فراغت کے بعد استنجا میں ڈھیلے یا پانی استعمال کرتے وقت ہاتھ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
حدیث نے وضاحت سے بتا دیا کہ ایسی چیزوں میں دائیں ہاتھ کا استعمال نامناسب ہے۔
یہ اس ہاتھ کی شرافت ومنزلت کے خلاف ہے۔
(عمدة القاري: 420/2)

پانی پیتے وقت بھی برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی گندی بھاپ پانی کو مکدر کردیتی ہے اور پانی دوسروں کے پینے کے قابل نہیں رہتا، نیز سانس لینے سے ممکن ہے کہ لعاب دہن یا ناک کی رطوبت پانی میں گر جائے۔
اس کے علاوہ یہ حیوانوں کی عادت ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ پانی کے برتن میں منہ ڈال دیتے ہیں تو پانی بھی پیتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں، لہٰذا شریعت نے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرما دیا۔
اسلامی ادب یہ ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کردیا جائے اور تین سانس لے کر پانی پیا جائے۔
(فتح الباري: 333/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 153   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5630  
5630. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لےاور جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنی شرمگاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے۔ اور جب استنجا کرے تو دائیں ہاتھ سے نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5630]
حدیث حاشیہ:
پانی پیتے وقت برتن میں سانس نہ لینے کی حکمت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے اس میں تھوک وغیرہ پڑ سکتا ہے جسے طبیعت ناگوار محسوس کرتی ہے۔
برتن میں سانس لینا موجودہ طب کے لحاظ سے بھی درست نہیں کیونکہ معدے کے بخارات پانی میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے بیماری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
حفظ ما تقدم کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اگر پانی، دودھ یا کوئی اور مشروب پیتے ہوئے سانس لینے کی ضرورت ہو تو برتن منہ سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے، پھر حسب ضرورت دوبارہ پی لیا جائے۔
برتن ہی میں سانس لے کر دوبارہ پینا شروع کر دینا کسی صورت میں بھی اچھا نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5630   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.