عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: دین کی سمجھ سے مراد کتاب و سنت کا علم، ذخیرہ احادیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کا علم، اسلامی شریعت کے احکام و مسائل کا علم اور حلال و حرام میں تمیز پیدا کرنے کا ملکہ ہے، اس نظر یہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہو سکتا ہے، جنہوں نے بے انتہائی محنت کر کے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب و ابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب و سنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2645
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دین کی سمجھ سے مراد کتاب وسنت کا علم، ذخیرہ احادیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کا علم، اسلامی شریعت کے احکام ومسائل کا علم اورحلال وحرام میں تمیز پیدا کرنے کا ملکہ ہے، اس نظریہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہو سکتا ہے، جنہوں نے بے انتہا محنت کر کے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب وابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کرکے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب وسنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2645