حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا سعيد بن عبيد الهنائي، حدثنا عبد الله بن شقيق، حدثنا ابو هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل بين ضجنان وعسفان، فقال المشركون: إن لهؤلاء صلاة هي احب إليهم من آبائهم وابنائهم وهي العصر، فاجمعوا امركم فميلوا عليهم ميلة واحدة، وان جبريل اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فامره ان يقسم اصحابه شطرين فيصلي بهم وتقوم طائفة اخرى وراءهم ولياخذوا حذرهم واسلحتهم، ثم ياتي الآخرون ويصلون معه ركعة واحدة ثم ياخذ هؤلاء حذرهم واسلحتهم، فتكون لهم ركعة ركعة ولرسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتان "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث عبد الله بن شقيق، عن ابي هريرة، وفي الباب، عن عبد الله بن مسعود، وزيد بن ثابت، وابن عباس، وجابر، وابي عياش الزرقي، وابن عمر، وحذيفة، وابي بكرة، وسهل بن ابي حثمة، وابو عياش الزرقي اسمه زيد بن صامت.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ لِهَؤُلَاءِ صَلَاةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ وَهِيَ الْعَصْرُ، فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً، وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَى وَرَاءَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ هَؤُلَاءِ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، فَتَكُونُ لَهُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَحُذَيْفَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُهُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ (اس پر) جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ (پہلے گروہ والے لوگ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ۱؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابن عباس، جابر، ابوعیاش زرقی، ابن عمر، حذیفہ، ابوبکرہ اور سہل بن ابوحشمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔
يقسم أصحابه شطرين فيصلي بهم وتقوم طائفة أخرى وراءهم وليأخذوا حذرهم وأسلحتهم ثم يأتي الآخرون ويصلون معه ركعة واحدة ثم يأخذ هؤلاء حذرهم وأسلحتهم فتكون لهم ركعة ركعة ولرسول الله ركعتان
قام رسول الله إلى صلاة العصر فقامت معه طائفة وطائفة أخرى مقابل العدو وظهورهم إلى القبلة فكبر رسول الله فكبروا جميعا الذين معه والذين مقابلي العدو ثم ركع رسول الله ركعة واحدة وركعت الطائفة التي معه ث
قام رسول الله لصلاة العصر وقامت معه طائفة وطائفة أخرى مقابل العدو وظهورهم إلى القبلة فكبر رسول الله فكبروا جميعا الذين معه والذين يقابلون العدو ثم ركع رسول الله ركعة واحدة وركعت معه الطائفة التي تلي
لهؤلاء صلاة هي أحب إليهم من أبنائهم وأبكارهم أجمعوا أمركم ثم ميلوا عليهم ميلة واحدة فجاء جبريل فأمره أن يقسم أصحابه نصفين فيصلي بطائفة منهم وطائفة مقبلون
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3035
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف ﴿وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ أَسْلِحَتَهُمْ﴾(النساء: 102)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3035
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1544
´باب:` مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی ہے؟ تو ابوہریرہ نے کہا: ہاں پڑھی ہے، انہوں نے پوچھا: کب؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نجد کے غزوہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابل رہا، اور ان کی پیٹھ قبلہ کی طرف تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، تو جو آپ کے ساتھ تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے سبھوں نے اللہ اکبر کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع کیا، اور اس گروہ نے بھی جو آپ کے ساتھ تھا رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اس گروہ نے بھی سجدہ کیا جو آپ کے ساتھ تھا، اور دوسرے لوگ دشمن کے مقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور وہ گروہ جو آپ کے ساتھ تھا، پھر یہ لوگ جا کر دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے، پھر وہ گروہ جو دشمن کے بالمقابل تھا آیا، چنانچہ ان لوگوں نے (بھی) رکوع کیا، اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے جیسے تھے، پھر وہ لوگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا رکوع کیا، تو ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا، آپ نے سجدہ کیا، اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر وہ گروہ آیا جو دشمن کے مقابل میں کھڑا تھا، تو اس نے بھی رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر سلام پھیرنے (کا وقت آیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور تمام لوگوں نے سلام پھیرا، تو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت ہوئی، اور دونوں گروہوں کے ہر ہر فرد کی (بھی) دو دو رکعت ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1544]
1544۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ یہ اس وقت قابل عمل ہو گی جب خوف زیادہ نہ ہو کیونکہ شروع نماز میں بھی سب اکٹھے تھے اور آخر نماز میں بھی سب اکٹھے تھے، بلکہ آخر میں تو دشمن کے مقابل کوئی بھی نہ رہا۔ سب آپ کے پیچھے تھے۔ ایک گروہ اپنی نماز کی باقی رکعت پڑھ رہے تھے اور دوسرے ویسے آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ سلام سب نے بیک وقت پھیرا۔ ➋ نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں اور یہ کئی علاقوں میں تھا، مثلاً: نجد حجاز، نجد عراق اور نجد یمن۔ مندرجہ بالا حدیث میں نجد سے نجد حجاز مراد ہے۔ اور بددعا والی حدیث میں نجد عراق۔ اس کا پتہ قرائن اور دیگر احادیث سے چلتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1544
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1545
´باب:` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان کے درمیان اترے آپ مشرکین کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، مشرکین نے (آپس میں) کہا: ان لوگوں کی ایک ایسی نماز ہے جو انہیں اپنی اولاد اور اپنی بیویوں سے بھی زیادہ محبوب ہے، تو ایسا کرو تم سب تیار رہو (جب یہ نماز پڑھنے لگیں) تو یکبارگی ان پر پل پڑو، تو جبرائیل علیہ السلام (آپ کے پاس) آئے، اور انہوں نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صحابہ کو دو حصوں میں بانٹ دیں، ان میں سے ایک گروہ کو آپ نماز پڑھائیں، اور ایک گروہ دشمن کے مقابل اپنے بچاؤ کی چیز اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے، آپ انہیں ایک رکعت پڑھائیں، پھر یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں، اور وہ لوگ آگے آ جائیں جو دشمن کے مقابل ہوں، تو پھر آپ انہیں ایک رکعت پڑھائیں، تو لوگوں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت ہو گی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1545]
1545۔ اردو حاشیہ: ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گروہوں نے ایک ایک رکعت ہی پر اکتفا کیا، البتہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھی ہو کیونکہ الفاظ حدیث: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ“ سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ سنن نسائی کے شارح شیخ اتیوبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شرح ذخیرۃ العقبٰی میں پہلی بات کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم: دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی، شرح سنن النسائی: 17؍134)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1545