(161) Chapter. The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers, Eid prayers and funeral prayers and their rows in the prayers.
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه قال:" اقبلت راكبا على حمار اتان وانا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وارسلت الاتان ترتع، ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي احد".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ:" أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْتُ وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ ابھی میں جوانی کے قریب تھا (لیکن بالغ نہ تھا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دیوار وغیرہ (آڑ) نہ تھی۔ میں صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر کر اترا۔ گدھی چرنے کے لیے چھوڑ دی اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا (حالانکہ میں نابالغ تھا)۔
Narrated Ibn `Abbas: Once I came riding a she-ass and I, then, had just attained the age of puberty. Allah's Apostle was leading the people in prayer at Mina facing no wall. I passed in front of the row and let loose the sheass for grazing and joined the row and no one objected to my deed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 820
أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
جئت أنا والفضل على أتان ورسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فمررنا على بعض الصف فنزلنا فتركناها ترتع، ودخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 753
´نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا:) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 753]
753 ۔ اردو حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ تھا جیسا کہ دیگر مفصل روایات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 493] اس لیے یہ روایت اس باب کے تحت نہیں آنی چاہیے تھی۔ بعض لوگوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ گدھے کا گزرنا نماز نہیں توڑتا، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ توڑنے نہ توڑنے کی بحث اس وقت ہے جب آگے سترہ نہ ہو اور وہ سترے اور نمازیوں کے درمیان سے گزری ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 753
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث947
´کس چیز کے نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 947]
اردو حاشہ: فائدہ: اس سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی جب کہ حدیث 950 تا 952 میں آرہا ہے۔ کہ گدھے کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن نماز نہ ٹوٹنے پر اس حدیث سےاستدلال قوی نہیں کیونکہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے امام نبی اکرمﷺ کے سامنے سے نہیں گزرے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 947
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 861
861. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں اس وقت قریب البلوغ تھا اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی چیز کی طرف منہ کر کے) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں صف کے ایک حصے سے گزر کر خود صف میں شامل ہو گیا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس ساری کاروائی کے متعلق مجھ پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:861]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 861