الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
43. باب يَجِبُ إِتْيَانُ الْمَسْجِدِ عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ:
43. باب: جو اذان سنتا ہے اس پر مسجد میں پہنچنا لازم ہے۔
حدیث نمبر: 1486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، وإسحاق بن إبراهيم ، وسويد بن سعيد ، ويعقوب الدورقي كلهم، عن مروان الفزاري ، قال قتيبة: حدثنا الفزاري، عن عبيد الله بن الاصم ، قال: حدثنا يزيد بن الاصم ، عن ابي هريرة ، قال: " اتى النبي صلى الله عليه وسلم، رجل اعمى، فقال: يا رسول الله، إنه ليس لي قائد يقودني إلى المسجد، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يرخص له فيصلي في بيته، فرخص له، فلما ولى، دعاه، فقال: " هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال: نعم، قال: فاجب ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ كلهم، عَنْ مَرْوَانَ الْفَزَارِيِّ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الأَصَمِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلٌ أَعْمَى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِهِ، فَرَخَّصَ لَهُ، فَلَمَّا وَلَّى، دَعَاهُ، فَقَالَ: " هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَجِبْ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکی نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کےرسول! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر) مجھے مسجد میں لے آئے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ آپ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ واپس ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: کیا تم نماز کا بلاوا (اذان) سنتے ہو؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو اس پر لبیک کہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! مجھے مسجد میں لانے والا کوئی آدمی نہیں ہے تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی۔ کہ اسے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دے دی جب اس نے پشت پھیر لی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: کیا تم نماز کے لیے بلاوا سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسے قبول کرو، یعنی نماز کے لیے آؤ۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 653

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 534  
´اذان سننے والا مسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرے`
«. . . - " إذا سمعت النداء، فأجب داعي الله عز وجل ". . . .»
. . . سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اذان تو سنتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ایسا قائد نہیں (جو مجھے مسجد میں لے آئے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو اذان سنے تو اللہ تعالیٰ کے داعی (کی پکار پر) لبیک کہہ (اور مسجد میں پہنچ)۔ . . . [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 534]

فوائد و مسائل:
جہاں نماز باجماعت عظیم کارثواب ہے، وہاں اس کا اہتمام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، جیسا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ» [النساء:102]
(اے محمد!) جب آپ ان میں ہوں اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہئیے کہ ان (مجاہدین صحابہ) کی ایک جماعت آپ کے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو۔

قارئین کرام! غور فرمائیں کہ حالت جنگ میں بھی نماز باجماعت کا حکم دیا جا رہا ہے، امن کی حالت میں جماعت کی اہمیت کا خود اندازہ لگا لیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والذي نفسي بيده لقد هممت ان آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة......» [بخاري، مسلم] ...
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے یہ ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر کسی کو کہوں کہ وہ نماز پڑھائے، اور میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔

جو پیغمبروں کے حق میں ان کے نفسوں سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، جس پر مومنوں کی تکلیف اور مشقت بڑی گراں گزرتی ہے، جو اپنے امتیوں کی دنیوی خیریت اور اخروی عافیت کا سب سے زیادہ حریص ہے، وہی پیغمبرِ اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پیروکاروں کے گھروں کو جلا ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ صرف جماعت کے ساتھ حاضری نہ دینے کی وجہ سے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له إلا من عذر» [ابوداود، ابن ماجه]
جو آدمی اذان سننے کے باوجود نماز باجماعت کے ساتھ ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔

قارئین کرام! شاید آپ بھی اس حقیقت کے قائل ہوں کہ جو روحانی تسکین نماز باجماعت سے حاصل ہوتی ہے، اکیلے نماز پڑھنے والا آدمی اس سے کوسوں دور ہے، جماعت کے بہانے مسلمان کا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزر جاتا ہے، فجر کی نماز کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ آپ باوضو ہو کر گھر میں یا مسجد میں سنتیں ادا کر کے جماعت کے انتظار میں ذکر میں مصروف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر جماعت میں تقریبا چالیس، پچاس یا اس سے بھی زیادہ آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، سلام پھیرنے کے بعد ذکر و اذکار کرنے کا موقع ملتا ہے، اس طرح تقریبا گھنٹہ، پون گھنٹہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزرتا ہے اور دن کی حسین انداز میں ابتدا ہو جاتی ہے اور دل میں مخصوص قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس منفرد آدمی کیسے نماز پڑھتا ہے، اس کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے، اس کو کتنی تسکین نصیب ہوتی ہے؟ آپ خود بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اگر کوئی آدمی روحانی طور پر اکیلے اور باجماعت نماز ادا کرنے میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا، یا جماعت رہ جانے کی وجہ سے اسے کسی قسم کی ندامت اور افسوس نہیں ہوتا، تو اسے اس حقیقت کا قائل ہونا پڑے گا کہ ایسا شخص ایمان کی شیریں اور اسلام کی مٹھاس سے محروم ہے۔ کہاں ستائیس نمازوں کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا اجر، کہاں آدھ پون گھنٹہ کی عبادت اور کہاں تین چار منٹوں کی عبادت۔

قارئین کرام! ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں باورچی یا ہوٹل کا کھانا مزیدار ہوتا ہے، فلاں دوکان کے جوتے معیاری ہوتے ہیں، فلاں درزی کی سلائی کیا ہوا سوٹ خوبصورت ہوتا ہے، فلاں سبزی فروش اور دوکاندار کا سودا معیاری اور کم قیمت والا ہوتا ہے اور پھر جیب اجازت دے تو ہم ان ہی دوکانوں اور دوکانداروں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے ہیں نماز با جماعت میں زیادہ سکون نصیب ہوتا ہے، مسجد میں نماز کی ادائیگی کا لطف ہی انوکھا ہے؟ (اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائیں۔ آمین) «سمع النداء»
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث\صفحہ نمبر: 534   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1486  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا تقاضا اور مفاد یہی ہے،
کہ اس انسان کو نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے جو مسجد میں آ سکتا ہے۔
اگرچہ اسے نابینا آدمی کی طرح محنت و مشقت برداشت کر کے آنا پڑے اگر جماعت چھوڑنے کی رخصت مل سکتی تو نابینا انسان جس کو لانے والا بھی موجود نہ ہو اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی اجازت نہیں دی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1486   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.