الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
26. باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ:
26. باب: نماز اور دعائے شب۔
حدیث نمبر: 1813
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه زهير بن حرب ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا ابو النضر ، قالا: حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة ، عن عمه الماجشون بن ابي سلمة ، عن الاعرج ، بهذا الإسناد، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا استفتح الصلاة كبر، ثم قال: وجهت وجهي، وقال: وانا اول المسلمين، وقال: وإذا رفع راسه من الركوع، قال: سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد، وقال: وصوره فاحسن صوره، وقال: وإذا سلم، قال: اللهم اغفر لي ما قدمت، إلى آخر الحديث، ولم يقل بين التشهد والتسليم.وحَدَّثَنَاه زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِي، وَقَالَ: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، وَقَالَ: وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَقَالَ: وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ، وَقَالَ: وَإِذَا سَلَّمَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَقُلْ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ.
عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے اپنے چچا الماجثون (یعقوب) بن ابی سلمہ سے اور انھوں نے (عبدالرحمان) اعرج سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر د عا پڑھتے: وجہت وجہیی اس میں (کے بجائے) "انا من المسلمین" اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں اولین (مقام پر فائز) ہوں"کے الفاظ ہیں اور کہا: جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو"سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد" کہتے اورصورہ (اس کی صورت گری کی) کے بعد "فاحسن صورہ" (اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) کے الفاظ کہے اور کہا جب سلام پھیرتے تو کہتے: " اللہم اغفرلی ما قدمت "اے اللہ! بخش دے جو میں نے پہلے کیا۔"حدیث کے آخر تک اور انھوں نے "تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان" کے الفاظ نہیں کہے۔
امام صاحب یہی روایت دوسرے استاد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز کرتے تو اَللہُ اَکْبَر کہنے کے بعد، (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ) دعا پڑھتے۔اور اس میں (اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْن) کی بجائے (اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْن) ہے کہ میں سب سے پہلے اطاعت گزار ہوں اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں پہلے مقام ومرتبہ پر فائز ہوں۔ اوراس میں ہے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے اور (صَوَّرَهُ) کے بعد (فَاَحْسَنَ صُوَرَهُ) (اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) اور اس میں ہے کہ (اللهم اغْفِرْلِيْ مَاقَدَّمْتُ) والی دعا سلام پھیرنے کے بعد پڑھتے۔ تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان کا ذکر نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 771

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 212  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أنه كان إذا قام إلى الصلاة قال: «‏‏‏‏وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض» إلى قوله: «...من المسلمين،‏‏‏‏ اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك..» إلى آخره . رواه مسلم وفي رواية له: إن ذلك في صلاة الليل. . . .»
. . . ´سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو پہلے یہ دعا پڑھتے کہ «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ...... من المسلمين، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك .... إلى آخره» میں نے اپنے چہرے کو آسمانوں اور زمینوں کے خالق کی طرف متوجہ کیا اور میں مشرکوں سے نہیں۔ میری نماز و قربانی، میرا جینا و مرنا اللہ رب العزت ہی کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی مالک، تو ہی معبود ہے، تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوںٍ ٍ (آخر تک) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رات کہ نماز (تہجد) میں پڑھا کرتے تھے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 212]

لغوی تشریح:
«إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ» جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے، سے مراد ہے تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح یا دعائے استفتاح کے طور پر پڑھتے۔
«وَجَّهْتُ» توجیہ سے ماخوذ ہے۔ میں نے چہرہ پھیر لیا۔
«فَطَرَ» خلق کے معنی میں ہے، یعنی پیدا کیا۔
«مِنَ الْمُسْلِمِين» تک۔ اس بارے میں دو روایتیں مروی ہیں۔ ایک روایت میں: «أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ» ہے۔ میں پہلا مسلمان (مطیع فرمان بندہ) ہوں۔ یہ آیت قرآنی میں مذکور لفظ کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے۔ اور دوسرا: «أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ» معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے۔ مصنف نے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ مکمل آیات اس طرح ہیں: پہلی آیت ہے: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [الأنعام 6: 79] اور دوسری آیت ہے: «إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ * لَا شَرِيْكَ لَهُ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ» [الأنعام 6: 162۔ 163] میں نے اپنا رُخ اس ذاتِ اقدس کی جانب کر لیا جو آسمانوں اور زمین کی خالق ہے، یکسو ہو کر، اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ یقیناًً میری نماز، میری ہر عبادت، میرا جینا اور میرا مرنا (سب کچھ) اسی اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک وپروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (ذات وصفات اور حقوق واختیارات میں۔) اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مطیع فرمان بندوں میں سے ہوں۔ ان آیات کو پڑھنے کے بعد آپ «اَللّٰهُمَّ! أَنْتَ الْمَلِكُ . . .» إلخ دعا پڑھتے۔
«إِلٰي آخِرِهٖ» یعنی اس معروف دعا کو آخر تک پڑھتے:
«اَللّٰهُمَّ! أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ»
اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی آقا و مالک نہیں۔ تو ہی میرا آقا و پروردگار ہے اور میں تیرا بندہ و غلام ہوں۔ میں نے (یقیناًً) اپنی جان پر ظلم کیا اور میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا، لہٰذا میرے سارے گناہ بخش دے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تیرے سوا کوئی اور گناہ بخش نہیں سکتا۔ میری عمدہ اور اچھے اخلاق کی طرف رہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ کوئی دوسرا نہیں دکھا سکتا۔ مجھ سے میری بری خصلتیں ہٹا دے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تیرے سوا برے اخلاق کو کوئی بھی ہٹا نہیں سکتا۔ بار بار تیرے حضور حاضر ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں۔ بھلائی ساری کی ساری تیرے ہاتھوں میں ہے اور برائی تیری جانب منسوب نہیں کی جا سکتی۔ میں تیرے ساتھ (ہی قائم) ہوں اور تیری جانب (ہی لوٹنے والا) ہوں۔ تو ہی بہت برکت والا اور بہت بلندی و برتری والا ہے۔ بخشش و خطا بخشی کا تجھی سے طلبگار ہوں اور توبہ کی صورت میں تیری جناب میں رجوع کرتا ہوں۔
مشہور محقق و محدث مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ترمذی کی شرح [تحفة الأحوذي: 203] میں اس حدیث پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم شریف کے باب صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے۔ ان دونوں طرق میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ رات کی نماز میں پڑھتے تھے، نیز اس حدیث کو ترمذی نے ابواب الدعوات [حديث: 3421، 3422، 3423] میں تین طرق سے روایت کیا ہے۔ تینوں میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ نماز شب میں پڑھتے تھے بلکہ اس کے برعکس جامع الترمذی ہی کی ایک روایت [3423] میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے تو اس موقع پر یہ دعا پڑھتے۔ اور امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن کی کتاب [الصلاة، باب «ما يستفتح به الصلاة من الدعاء»، حديث: 760، 761] میں بھی دو طریق سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ رات کی نماز میں مانگتے تھے بلکہ ان میں سے ایک میں تو یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوئے تو اس وقت یہ دعا مانگتے۔ اور سنن دراقطنی کی ایک روایت میں ہے: جب آپ فرض نماز کا آغاز فرماتے تو اس وقت «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ....» الخ پڑھتے۔ [سنن دارقطني: 287/1 - 296]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب نیل الاوطار میں کہا ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح اس حدیث کی تخریج کی اور اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے، اس وقت یہ پڑھتے۔ اور اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسے روایت کیا ہے، انہوں نے بھی فرض نماز کی قید لگائی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسروں نے بھی اسی طرح کہا: ہے۔ یہ قول کہ یہ دعا نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور فرض نماز میں مشروع نہیں باطل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الأوطار: 215/2 - 217]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 212   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1813  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نماز کے آغاز میں مختلف دعائیں فرماتے تھے اور حدیثِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی طویل دعا بھی تکبیرِ تحریمہ کے بعد پڑھتے تھے اس لیے احناف کا یہ کہنا کہ یہ تکبیرتحریمہ سے پہلے شروع کی جائے گی درست نہیں ہے اور اس حدیث میں یہ قید بھی نہیں ہے کہ آپﷺ یہ دعا رات کی نماز میں پڑھتے تھے۔
اگرچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو رات کی نماز کی احادیث میں ہی بیان کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1813   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.