الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
27. باب اسْتِحْبَابِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ:
27. باب: تہجد میں لمبی قرأت کا مستحب ہونا۔
حدیث نمبر: 1814
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، وابو معاوية . ح وحدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن جرير كلهم، عن الاعمش . ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن المستورد بن الاحنف ، عن صلة بن زفر ، عن حذيفة ، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء فقراها، ثم افتتح آل عمران فقراها، يقرا مترسلا، إذا مر بآية فيها، تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سال، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم ركع، فجعل يقول: سبحان ربي العظيم، فكان ركوعه نحوا من قيامه، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم قام طويلا، قريبا مما ركع، ثم سجد، فقال: سبحان ربي الاعلى، فكان سجوده قريبا من قيامه "، قال: وفي حديث جرير من الزيادة، فقال: سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ جَرِيرٍ كُلُّهُمْ، عَنِ الأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا، تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا، قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِه "، قَالَ: وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ مِنَ الزِّيَادَةِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
عبداللہ بن نمیر، ابو معاویہ اور جریر سب نے اعمش سے، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، انھوں نے مستورد بن احنف سے، انھوں نے صلہ بن زفر سے اور انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،۔انھوں نے کہا: ایک رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا، میں نے (دل میں) کہا: آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے میں نے کہا: آپ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپ آگے پڑھتے گئے، میں نے سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورہ نساءشروع کردی، آپ نے وہ پوری پڑھی، پھر آپ نے آل عمران شروع کردی، اس کو پورا پڑھا، آپ ٹھر ٹھر کر قرائت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے توسبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔ (اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپ نے ر کوع فرمایا اور سبحان ربی العظیم کہنے لگے، آپ کا رکوع (تقریباً) آپ کے قیام جتنا تھا۔پھر آپ نے "سمع اللہ لمن حمدہ"کہا: پھر آپ لمبی دیر کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا، پھر سجدہ کیا اور "سبحان ربی الاعلی" کہنے لگے اور آپ کا سجدہ (بھی) آپ کے قیام کے قریب تھا۔ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہےکہ آپ نے کہا: (سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد") یعنی ربنا لک الحمدکا اضافہ ہے۔)
امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت کرتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھنی شروع کردی، میں نے دل میں سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے، لیکن آپصلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے رہے، میں نے سوچا، آخر میں رکوع کریں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کر دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پوری پڑھ ڈالی، پھر آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھ ڈالا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر قرأ ت فرماتے رہے، جب تسبیح والی آیت سے گزرتے تو (سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب تعوذ(اللہ سے پناہ مانگنا) والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے پناہ مانگتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ر کوع کیا اور مسلسل (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہتے رہے،اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا،جو رکوع کے برابر تھا، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہتے رہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ اور جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 772
   سنن النسائى الصغرى1047حذيفة بن حسيلقال في ركوعه سبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى
   سنن النسائى الصغرى1134حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم ثم رفع رأسه فقال سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد وأطال القيام ثم سجد فأطال السجود يقول في سجوده سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى لا يمر بآية تخويف أو تعظيم لله إلا ذكره
   سنن النسائى الصغرى1666حذيفة بن حسيلقال في ركوعه سبحان ربي العظيم مثل ما كان قائما ثم جلس يقول رب اغفر لي رب اغفر لي مثل ما كان قائما سجد فقال سبحان ربي الأعلى مثل ما كان قائما فما صلى إلا أربع ركعات حتى جاء بلال إلى الغداة
   صحيح مسلم1814حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم فكان ركوعه نحوا من قيامه ثم قال سمع الله لمن حمده ثم قام طويلا قريبا مما ركع ثم سجد فقال سبحان ربي الأعلى فكان سجوده قريبا من قيامه
   جامع الترمذي262حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى وما أتى على آية رحمة إلا وقف وسأل وما أتى على آية عذاب إلا وقف وتعوذ
   سنن أبي داود871حذيفة بن حسيلصلى مع النبي فكان يقول في ركوعه سبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى وما مر بآية رحمة إلا وقف عندها فسأل ولا بآية عذاب إلا وقف عندها فتعوذ
   سنن ابن ماجه888حذيفة بن حسيلإذا ركع سبحان ربي العظيم ثلاث مرات وإذا سجد قال سبحان ربي الأعلى ثلاث مرات
   بلوغ المرام229حذيفة بن حسيلصليت مع النبي فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسال،‏‏‏‏ ولا آية عذاب إلا تعوذ منها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1814  
فقہ الحدیث
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز میں تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح فرماتے، جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اور جب تعوذ والی آیت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے۔
❀ امام ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ جب آپ نے « ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَي﴾ » کی تلاوت کی تو کہا: «سبحان ربي الاعليٰ» ۔ [المصنف لابن ابي شيبه 2/508]
↰ تقریباً یہی عمل عمران بن حصین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ سے ثابت ہے۔ [ايضاً]
لہٰذا امام کیلئے جائز ہے کہ جمعہ وغیرہ میں کسی آیت کی تلاوت کے بعد کبھی کبھار اس کا جواب بھی عربی زبان میں ہی جہراً یا سراً دے دے تاہم مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ مقتدی حضرات بھی آیات کا جوا ب دیں گے لہٰذا نمازیوں کو چاہئے کہ وہ حالت جہر میں امام کے پیچھے صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں۔ «والله أعلم»
   ۔۔۔، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 229  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن حذيفة رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسأل،‏‏‏‏ ولا آية عذاب إلا تعوذ منها. أخرجه الخمسة،‏‏‏‏ وحسنه الترمذي. . . .»
. . . سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب ایسی آیت گذرتی جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں وقفہ فرما کر رحمت طلب فرماتے اور جب آیت عذاب گزرتی تو وہاں ذرا وقفہ فرما کر اس سے پناہ مانگتے۔
اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 229]

لغوی تشریح:
«وَقَفَ» رُک جاتے، قرأت سے وقفہ فرماتے۔
«يَسْأَلُ» اللہ سے اس کی رحمت طلب فرماتے۔

فائدہ: یہ عمل غالباً آپ کا نماز تہجد میں ہوتا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس بات کی وضاحت ہے۔ [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل، حديث: 772] چنانچہ مسند احمد، ابوداود اور ابن ماجہ میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایسا نفل نماز میں کرتے تھے۔ [مسند أحمد: 347/4، و سنن أبى داود، الصلاة، باب الدعاء فى الصلاة، حديث: 881، وسنن ابن ماجه۔ إقامة الصلوت، باب ماجاء فيل القرءة فى صلاة اليل۔ حديث: 1352]
اسی طرح مسند أحمد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [مسند أحمد: 92/6] اور ابوداود اور نسائی میں سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تہجد کی نماز میں تھا۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب مايقل الرجل فى ركوعه و سجوده، حديث: 873، و سنن النسائي، الصلاة، باب الدعاء فى السجود، حديث 1133]
اور اگر کوئی یہ عمل فرض نماز میں بھی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں بالخصوص جبکہ وہ اکیلا فرض نماز پڑھ رہا ہو کیونکہ ایسی صورت میں وہ کسی کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ [سبل السلام]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 871  
´آدمی رکوع اور سجدے میں کیا کہے؟`
شعبہ کہتے ہیں: میں نے سلیمان سے کہا کہ جب میں نماز میں خوف دلانے والی آیت سے گزروں تو کیا میں دعا مانگوں؟ تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، جسے انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، سعید نے مستورد سے، مستورد نے صلہ بن زفر سے اور صلہ بن زفر نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے تھے، اور اپنے سجدوں میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے، اور رحمت کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں، اور اللہ سے سوال نہ کیا ہو، اور عذاب کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں اور عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 871]
871۔ اردو حاشیہ:
➊ قرات قرآن انتہائی غور و فکر سے کرنی چاہیے، خواہ نماز کے دوران ہو یا اس کے علاوہ۔
➋ تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ و مفہوم آتا ہو۔ لہٰذا علم حاصل کرنا چاہیے۔ «
»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 871   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1047  
´رکوع کی دعا (ذکر) کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا تو اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1047]
1047۔ اردو حاشیہ: ایک اور روایت میں یہ تسبیحات کم از کم تین دفعہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آخر میں ہے کہ یہ کم از کم رکوع و سجود ہے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني: حدیث: 155] صحیح روایت میں بجائے حکم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل منقول ہے۔ دیکھیے: [صحیح أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 828] لہٰذا کم از کم سجدے میں تین تسبیحات افضل ہیں، ضروری نہیں۔ نیز طاق کی قید کے بغیر تین سے زیادہ تسبیحات بھی کہی جا سکتی ہیں۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث ہیں جن میں آپ کے قیام، رکوع اور سجدے کی یکساں مقدار بتائی گئی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1047   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث888  
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں «سبحان ربي العظيم» تین بار، اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» تین بار کہتے سنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 888]
اردو حاشہ:
فائدہ:
تین بار یہ تسبیحات کہنا رکوع اور سجدے کی کم از کم مقدار ہے۔
رسول اللہ ﷺنے نماز تہجد کے رکوع وسجود میں بھی یہ تسبیحات پڑھی ہیں۔
جبکہ یہ رکوع وسجود انتہائی طویل تھے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل، حدیث: 772)
اس حدیث کو بعض حضرات نے صحیح کہا ہے۔
دیکھئے: (الارواء، رقم: 333)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 888   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 262  
´رکوع اور سجدے میں تسبیح کا بیان۔`
حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پر آتے تو ٹھہرتے اور (عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ نفل نمازوں کے ساتھ خاص ہے،
شیخ عبدالحق لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح میں فرماتے ہیں االظاهر أنه كان في الصلاة محمول عندنا على النوافل یعنی ظاہر یہی ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہو گا۔
(اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آ گئی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 262   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1814  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ رات کی نماز میں قراءت طویل فرماتے تھے اور قیام کی طوالت کے ساتھ،
رکوع،
قومہ اور سجدہ بھی قیام کی طرح لمبا کرتے اور اس میں تسبیحات کا تکرار فرماتے قراءت آہستہ آہستہ ٹھہرٹھہر کر فرماتے مزید برآں آیات کے مفہوم ومعنی کے مطابق جہاں تسبیح کی ضرورت ہوتی،
وہاں (سُبْحَانَ اللہ)
کہتے جہاں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ضرورت ہوتی وہاں سوال کرتے اور جہاں اللہ تعالیٰ سے تعوذ سے پناہ طلب کرنے کی ضرورت ہوتی،
وہاں تعوذ فرماتے۔
اس طرح قیام مزید طویل ہو جاتا اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں سورتوں کی ترتیب سے پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ آپﷺ نے آل عمران سے پہلے نساء پڑھی ہے۔
حالانکہ آل عمران پہلے ہے اور سورہ نساء بعد میں ہے۔
جولوگ نماز میں سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں ان کی بات حدیث کے خلاف ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1814   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.