الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
51. باب تَرْكِ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ عَلَى الصَّدَقَةِ:
51. باب: آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ کو استعمال نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي ، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، ان اباه ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، والعباس بن عبد المطلب، قالا لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس: ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه: فالقى علي رداءه، ثم اضطجع عليه، وقال: انا ابو حسن القرم، والله لا اريم مكاني حتى يرجع إليكما ابناكما بحور ما بعثتما به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال في الحديث: ثم قال لنا: " إن هذه الصدقات إنما هي اوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد "، وقال ايضا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ادعوا لي محمية بن جزء وهو رجل من بني اسد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمله على الاخماس.حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَقَالَ فِيهِ: فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ مَكَانِي حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِحَوْرِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ قَالَ لَنَا: " إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ "، وَقَالَ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ.
یو نس بن یزید نے ابن شہاب سے اور انھوں نے عبد اللہ بن حارث بن نو فل ہا شمی سے روایت کی کہ حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب نے انھیں بتا یا کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا تم دو نوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جاؤ۔۔۔اور امام مالک ؒ کی (مذکورہ بالا) حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چا در بچھا ئی اور اس پر لیٹ گئے اور کہا میں بات پر ڈٹ جا نے والا ابو حسن ہوں اللہ کی قسم!میں اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ تم دونوں کے بیٹے جس مقصدکے لیے انھیں بھیج رہے ہو اس کا جواب لے کر تمھا رے پاس واپس (نہ آجا ئیں۔ اور اس حدیث میں کہا: پھر آپ نے ہمیں فرمایا: "یہ صدقات لوگوں کا میل کچل ہیں اور یقیناً یہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلا ل نہیں اور یہ بھی کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس محمیۃ بن جزکو بلاؤ۔وہ بنو اسد کا ایک فرد تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال خمس کے انتظامات کے لیے مقرر کیا تھا۔
حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ آگے مالک کی مذکورہ حدیث کی طرح بیان کی اور اس میں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی چادر بچھائی پھر اس پر لیٹ گئے اور کہا میں ہوں جو نر(سانڈھ) ہے یعنی معاملہ فہم ہوں اور اللہ کی قسم! میں اس جگہ کو نہیں چھوڑدوں گا یہاں تک کہ تم دونوں کے بیٹے جس مقصد کے لیے انہیں بھیج رہے ہو اس کا جواب لے کر واپس لوٹ آئیں، اور اس حدیث میں ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: یہ صدقات تو لوگوں کا میل کچیل ہیں اور یہ محمد اور آل کے لیے جائز نہیں ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: میرے پاس محمیہ بن جزء کو بلاؤ وہ بنو اسد کا ایک فرد تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کی وصولی کے لیے عامل بنایا تھا (قاضی عیاض کا خیال ہے وہ بنو زبید کا فرد تھا)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1072

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2482  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
القرام:
سید سردار،
نر اونٹ،
مقصود یہ ہے معاملہ فہم ہوں اور صائب الرائے ہوں۔
(2)
لَا أَرِيمُ مَكَانِي﷤:
اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا یا اپنی جگہ سے نہیں ہٹوں گا۔
(3)
الحَوْرِ:
جواب،
چوکہ حور کا اصل معنی رجوع اور واپسی ہے،
اس لیے یہ معنی بھی ہو سکتا ہے۔
وہ ناکام لوٹ آئیں۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مصارف زکاۃ (زکاۃ)
کی مدات (میں کسی مصرف کے اعتبار سے بھی آپﷺ کی آل کے لیےصدقہ لینا جائز نہیں ہے۔
اور آپﷺ نے ان کی مہر کی رقم خمس میں سے اپنے حصہ یا رشتہ داروں کے حصہ سے ادا کرنے کا حکم دیا۔
اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ لوگوں کی میل کچیل ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے اس کو شیر مادر سمجھ کر ہضم نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ آج کل یہ وبا عام ہو چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2482   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.